Sanjay Mishra Shauq

سنجے مصرا شوق

سنجے مصرا شوق کی غزل

    جس نے میرے سر پر تہمت رکھی ہے

    جس نے میرے سر پر تہمت رکھی ہے میں نے اس کے گھر کی عزت رکھی ہے بات الگ ہے فاقہ مست فقیروں کی ٹھوکر میں دنیا کی دولت رکھی ہے امرت جل لے جاؤ کہ اس نے ہاتھوں میں کنواں کھودنے بھر کی طاقت رکھی ہے میں نے تو دتکار دیا سو بار اسے لیکن اس نے میری عزت رکھی ہے سفر بہت مشکل ہے پاپی دنیا ...

    مزید پڑھیے

    شکستہ چھت میں پرندوں کو جب ٹھکانہ ملا

    شکستہ چھت میں پرندوں کو جب ٹھکانہ ملا میں خوش ہوا کہ مرے گھر کو بھی گھرانا ملا فلک پہ اڑتے ہوئے بھی نظر زمیں پہ رہی مزاج مجھ کو مقدر سے طائرانہ ملا ہم اس کے حسن سخن کی دلیل کیا دیں گے وہ جتنی بار ملا ہم سے برملا نہ ملا اب آ گیا ہے تو چپ چاپ خامشی کو سن مرے سکوت میں اپنی کوئی صدا ...

    مزید پڑھیے

    فریب خوبیٔ نیرنگ دیکھنے کے لئے

    فریب خوبیٔ نیرنگ دیکھنے کے لئے نکل پڑا ہوں ترے سنگ دیکھنے کے لئے تعصبات کے چہرے پہ اب ہے خوشحالی لہو کے رنگ کو بے رنگ دیکھنے کے لئے ذرا شعور کی آنکھیں تو کھولیے صاحب کمال ضبط کا آہنگ دیکھنے کے لئے نگار خانۂ فن کے جمال کی سوگندھ میں آ گیا ہوں ترے ڈھنگ دیکھنے کے لئے تعلقات کا ...

    مزید پڑھیے

    چہرے پہ میرے اب وہ رعونت نہیں رہی

    چہرے پہ میرے اب وہ رعونت نہیں رہی آئینہ دیکھنے کی ضرورت نہیں رہی قابو میں پھر ہماری عبادت نہیں رہی ورثے میں جو ملی تھی عمارت نہیں رہی صد شکر اپنے پاؤں پہ چلنے لگا ہوں میں بیساکھیوں کی مجھ کو ضرورت نہیں رہی جیون ہے جیسے دھوپ میں دیمک زدہ کتاب جس کے ورق الٹنے کی ہمت نہیں ...

    مزید پڑھیے

    خرد کی راہ میں ہر موڑ پر دھوکے نکل آئے

    خرد کی راہ میں ہر موڑ پر دھوکے نکل آئے بساط امن پر بھی جنگ کے نقشے نکل آئے ضروری ہے ہم اپنی زندگی کو آئنہ رکھیں یہ چادر کون اوڑھے گا اگر دھبے نکل آئے محبت کا اسے اقرار کرنا ہی پڑا لیکن یہ سوکھے پیڑ سے کیسے ہرے پتے نکل آئے بہت دن بعد جب میں نے خودی کا آئنہ دیکھا تو خود میرے ہی ...

    مزید پڑھیے

    دھو کے اشکوں سے کئی بار اجالی ہوئی ہے

    دھو کے اشکوں سے کئی بار اجالی ہوئی ہے دھوپ میں جل کے وہ تصویر بھی کالی ہوئی ہے میں گروں گا تو اسی خاک سے اٹھے گا کوئی حق پرستوں سے یہ دنیا کبھی خالی ہوئی ہے لکھنؤ ناز ہے جس پر وہی کہنہ تہذیب ہم نے ورثے میں سلیقے سے سنبھالی ہوئی ہے اب نہ تصویر ہے کوئی نہ ہے کیلوں کی چبھن دل کی ...

    مزید پڑھیے

    گئی نہیں ترے ظلم و ستم کی خو اب تک

    گئی نہیں ترے ظلم و ستم کی خو اب تک ٹپک رہا ہے مری آنکھ سے لہو اب تک نہ جانے کب سے ہے میرے لبوں پہ تیرا نام اسی سبب سے تو ٹوٹا نہیں وضو اب تک تمام عمر گلستاں میں کٹ گئی لیکن ہوا نہیں مجھے اور ایک رنگ و بو اب تک کسی بھی شعر کو حاصل ہوئی نہ زرخیزی میں ڈھونڈھتا رہا صحراؤں میں نمو اب ...

    مزید پڑھیے

    بارش سنگ سے گل چاک ہوا چاہتے ہیں

    بارش سنگ سے گل چاک ہوا چاہتے ہیں سب اسی خاک کی پوشاک ہوا چاہتے ہیں یوں ترے شہر میں بدلی ہے ہوائے خوش رنگ جتنے معصوم ہیں چالاک ہوا چاہتے ہیں فکر کا آب رواں اب نہیں رکنے والا ہم اسی بحر کے پیراک ہوا چاہتے ہیں سب کو رہتی ہے یہاں شہر اماں کی خواہش اتنے حالات خطرناک ہوا چاہتے ...

    مزید پڑھیے

    امیر شہر کے آنگن میں جب اجالے ہوئے

    امیر شہر کے آنگن میں جب اجالے ہوئے نہ جانے کتنے گھروں کے چراغ کالے ہوئے اسی زمیں کے خدا قبر گاہ میں اپنی ہیں اپنی جسم کی مٹی پہ خاک ڈالے ہوئے تمہاری فکر کی کوتاہ قد حویلی میں بجھے چراغ تو پھر مکڑیوں کے جالے ہوئے مخالفین کا اب شغل ہو گیا ہے یہی اچھالتے ہیں یہ جملے مرے اچھالے ...

    مزید پڑھیے

    پھر سے بدلے یہاں تہذیب نے تیور اپنے

    پھر سے بدلے یہاں تہذیب نے تیور اپنے نوچ کر پھینک دیے جسم سے زیور اپنے اس نے شب خون جو مارا تو بچا کچھ بھی نہیں ہم اڑاتے ہی رہے چھت پہ کبوتر اپنے ایسے زنداں میں ہیں جس میں کہ نہ دیوار نہ در اس نے یہ سوچ کے خود کاٹ لئے پر اپنے سر پھرا مجھ سا کوئی میرے مقابل بھی تو ہو ہر کسی پر نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2