دھو کے اشکوں سے کئی بار اجالی ہوئی ہے

دھو کے اشکوں سے کئی بار اجالی ہوئی ہے
دھوپ میں جل کے وہ تصویر بھی کالی ہوئی ہے


میں گروں گا تو اسی خاک سے اٹھے گا کوئی
حق پرستوں سے یہ دنیا کبھی خالی ہوئی ہے


لکھنؤ ناز ہے جس پر وہی کہنہ تہذیب
ہم نے ورثے میں سلیقے سے سنبھالی ہوئی ہے


اب نہ تصویر ہے کوئی نہ ہے کیلوں کی چبھن
دل کی دیوار اسی سال سے خالی ہوئی ہے


خاک میں مل گیا جب روح کا خالی پنجرہ
منصب عشق پہ تب اپنی بحالی ہوئی ہے


دشت وحشت کا کوئی خوف نہیں ہے ہم کو
سب بھلا دینے کی تدبیر نکالی ہوئی ہے


تیرے جیسا تو کہیں کوئی نہیں ہے جاناں
ہم نے آفاق کی منزل بھی کھنگالی ہوئی ہے


ہاں مری فکر الگ ہے تو سبب ہے اس کا
درد کے چولھے پہ سو بار ابالی ہوئی ہے


اپنا حق مانگنا حاکم سے بغاوت ہے مگر
یہ روایت بھی ہماری ہی تو ڈالی ہوئی ہے


میرے ان شعروں پہ سر دھنتی رہے گی دنیا
جن میں تمثال گری دیکھنے والی ہوئی ہے