Sanjay Mishra Shauq

سنجے مصرا شوق

سنجے مصرا شوق کی غزل

    کاسۂ فکر میں رکھتا ہوں میں دولت اپنی

    کاسۂ فکر میں رکھتا ہوں میں دولت اپنی مفلسی میں بھی بدلتی نہیں عادت اپنی مجھ کو اس تلخ نوائی نے کیا ہے رسوا اپنی نظروں میں بہ ہر حال ہے عزت اپنی ہے مرے شہر میں کتنے ہی شکاری چہرے اپنی صورت میں جو رکھتے نہیں صورت اپنی میرا اخلاق ہی ایسا ہے کہ میرے سر پر جس کو دیکھو وہی رکھتا ہے ...

    مزید پڑھیے

    موج دریا کی طرح رقص کناں رہتے ہیں

    موج دریا کی طرح رقص کناں رہتے ہیں ہم سے مت پوچھئے کس وقت کہاں رہتے ہیں دل کی بیتابیاں معشوق نیا چاہتی ہیں اس طرف چل کہ جہاں ماہ رخاں رہتے ہیں سر بلندی ہے مقدر سے عمل سے حاصل ہاں تعاقب میں تو کوتاہ قداں رہتے ہیں کاش ہو جائے کبھی ہم سے کوئی کار درست زندگی میں تو بہت کار زیاں رہتے ...

    مزید پڑھیے

    شبیہ روح کچھ ایسے نکھار دی گئی ہے

    شبیہ روح کچھ ایسے نکھار دی گئی ہے انا فقیروں کے کاسے پہ وار دی گئی ہے تمہارے دل پہ بھی کچھ تو اثر ہوا ہوگا گرے پڑے ہوئے لفظوں کو دھار دی گئی ہے ہماری آنکھ کے آنسو ثبوت ہیں اس کا ہنسی ہمارے لبوں کو ادھار دی گئی ہے مرے بدن کے قفس آسماں سے پھر اس بار زوال صبح کی سرخی گزار دی گئی ...

    مزید پڑھیے

    دینے والے تجھے دینا ہے تو اتنا دے دے

    دینے والے تجھے دینا ہے تو اتنا دے دے آئنہ اس کو دیا ہے مجھے چہرہ دے دے راستے بند نظر آتے ہیں چاروں جانب میرے مولیٰ مجھے امید کا تیشہ دے دے پوچھتی ہیں مری آنکھیں کہ تو کب آئے گا جاتے جاتے مجھے اتنا تو دلاسہ دے دے اس طرح دل سے نکالا مجھے تو نے جیسے اپنے ہی گھر پہ کسی غیر کو قبضہ دے ...

    مزید پڑھیے

    خراب ہو گیا جب میرے جسم کا کاغذ

    خراب ہو گیا جب میرے جسم کا کاغذ تو میری روح نے پہنا ہے دوسرا کاغذ گزار دی ہے یوں ہی جوڑتے گھٹاتے ہوئے سوال حل نہ ہوئے اور بھر گیا کاغذ غریب شہر ہوں گھر ہے نہ کاروبار کوئی کبھی بچھاتا کبھی اوڑھتا رہا کاغذ حروف رقص کناں ہو گئے اچانک ہی لبوں سے اپنے جو اس نے کبھی چھوا کاغذ وہ دن ...

    مزید پڑھیے

    ٹوٹتے ہی دم دیوں کا اک دھواں پیدا ہوا

    ٹوٹتے ہی دم دیوں کا اک دھواں پیدا ہوا سوچ کے ساگر سے نیلا آسماں پیدا ہوا ایک مدت سے یہی تو سوچتا ہوں رات دن میں کہاں کا آدمی تھا اور کہاں پیدا ہوا دھوپ کی شدت نے آخر ہار تھک کر مان لی ہم جہاں ٹھہرے وہیں پر سائباں پیدا ہوا تیرگیٔ شب اجالوں میں بدل کر رہ گئی آنسوؤں میں اک جمال ...

    مزید پڑھیے

    فضائے ذہن کی جلتی ہوا بدلنے تک

    فضائے ذہن کی جلتی ہوا بدلنے تک میں بجھ نہ جاؤں لحاف انا بدلنے تک چراغ جسم میں اس بار بجھ نہ جاؤں میں ہوائے خیمئہ شب کی ردا بدلنے تک پھر آج کوفے سے ہجرت بہت ضروری ہے پلٹ کے آئیں گے آب و ہوا بدلنے تک عجیب لوگ ہیں دنیا تری ہوس کے لئے تلے ہوئے ہیں خود اپنا خدا بدلنے تک کشید کرتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    مذہب کی کتابوں میں بھی ارشاد ہوا میں

    مذہب کی کتابوں میں بھی ارشاد ہوا میں دنیا تری تعمیر میں بنیاد ہوا میں صیاد سمجھتا تھا رہا ہو نہ سکوں گا ہاتھوں کی نسیں کاٹ کے آزاد ہوا میں عریاں ہے مرے شہر میں تہذیب کی دیوی مندر کا پجاری تھا سو برباد ہوا میں مضمون سے لکھتا ہوں کئی دوسرے مضموں دنیا یہ سمجھتی ہے کہ نقاد ہوا ...

    مزید پڑھیے

    درد دل جان کا آزار ہے میں جانتا ہوں

    درد دل جان کا آزار ہے میں جانتا ہوں اور اللہ مددگار ہے میں جانتا ہوں میں بنا کلمہ پڑھے بھی تو مسلماں ٹھہرا ہاں مرے دوش پہ زنار ہے میں جانتا ہوں ایک اک حرف مہکنے لگا پھولوں کی طرح یہ تری گرمئ گفتار ہے میں جانتا ہوں رہن رکھے جو مری قوم کے مستقبل کو وہ مری قوم کا سردار ہے میں جانتا ...

    مزید پڑھیے

    کچھ بھی سمجھ نہ پاؤ گے میرے بیان سے

    کچھ بھی سمجھ نہ پاؤ گے میرے بیان سے دیکھا بھی ہے زمیں کو کبھی آسمان سے ہم روشنی کی بھیک نہیں مانگتے کبھی جگنو نکالتے ہیں اندھیروں کی کان سے محسوس کر رہی ہے زمیں اپنے سر پہ بوجھ مٹی کھسک کے گرنے لگی ہے چٹان سے ہنستی ہوئی بہار کا چہرہ اتر گیا بارود بن کے لفظ جو نکلے زبان سے ہم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2