چہرے پہ میرے اب وہ رعونت نہیں رہی

چہرے پہ میرے اب وہ رعونت نہیں رہی
آئینہ دیکھنے کی ضرورت نہیں رہی


قابو میں پھر ہماری عبادت نہیں رہی
ورثے میں جو ملی تھی عمارت نہیں رہی


صد شکر اپنے پاؤں پہ چلنے لگا ہوں میں
بیساکھیوں کی مجھ کو ضرورت نہیں رہی


جیون ہے جیسے دھوپ میں دیمک زدہ کتاب
جس کے ورق الٹنے کی ہمت نہیں رہی


علم و ہنر صداقت و مہر و وفا خلوص
بازار میں کسی کی بھی قیمت نہیں رہی


سوتا ہوں آنکھیں موند کے بھیگی زمین پر
اچھا ہے میرے سر پہ کوئی چھت نہیں رہی


کاسہ بدست گھوم رہی ہیں شرافتیں
اب ان کو منہ چھپانے کی حاجت نہیں رہی


سچ بولنا تپاک سے ملنا ہر ایک سے
جذبے یہ وہ ہیں جن میں حرارت نہیں رہی


کائی کی اک چٹان پہ ٹھہرا ہوا ہوں میں
پیروں کو اب پھسلنے کی عادت نہیں رہی