شکستہ چھت میں پرندوں کو جب ٹھکانہ ملا
شکستہ چھت میں پرندوں کو جب ٹھکانہ ملا
میں خوش ہوا کہ مرے گھر کو بھی گھرانا ملا
فلک پہ اڑتے ہوئے بھی نظر زمیں پہ رہی
مزاج مجھ کو مقدر سے طائرانہ ملا
ہم اس کے حسن سخن کی دلیل کیا دیں گے
وہ جتنی بار ملا ہم سے برملا نہ ملا
اب آ گیا ہے تو چپ چاپ خامشی کو سن
مرے سکوت میں اپنی کوئی صدا نہ ملا
لڑی سی ٹوٹ کے آنکھوں سے گر پڑی اے شوقؔ
لبوں سے حرف کا کوئی بھی سلسلہ نہ ملا