بارش سنگ سے گل چاک ہوا چاہتے ہیں

بارش سنگ سے گل چاک ہوا چاہتے ہیں
سب اسی خاک کی پوشاک ہوا چاہتے ہیں


یوں ترے شہر میں بدلی ہے ہوائے خوش رنگ
جتنے معصوم ہیں چالاک ہوا چاہتے ہیں


فکر کا آب رواں اب نہیں رکنے والا
ہم اسی بحر کے پیراک ہوا چاہتے ہیں


سب کو رہتی ہے یہاں شہر اماں کی خواہش
اتنے حالات خطرناک ہوا چاہتے ہیں


روشنی بیچنے والے یہ اجالوں کے سفیر
بستیاں پھونک کے غم ناک ہوا چاہتے ہیں


میری صحبت کا نتیجہ ہے کہ سارے مظلوم
ایک ہی وقت میں بے باک ہوا چاہتے ہیں