پھر سے بدلے یہاں تہذیب نے تیور اپنے

پھر سے بدلے یہاں تہذیب نے تیور اپنے
نوچ کر پھینک دیے جسم سے زیور اپنے


اس نے شب خون جو مارا تو بچا کچھ بھی نہیں
ہم اڑاتے ہی رہے چھت پہ کبوتر اپنے


ایسے زنداں میں ہیں جس میں کہ نہ دیوار نہ در
اس نے یہ سوچ کے خود کاٹ لئے پر اپنے


سر پھرا مجھ سا کوئی میرے مقابل بھی تو ہو
ہر کسی پر نہیں کھلنے کے ہیں جوہر اپنے


آسماں چھونے کی خواہش نے ہی بخشی پرواز
ورنہ حالات نے تو کاٹ دیے پر اپنے


کس پری خانۂ گل گشت میں پہنچا ہوں کہ اب
آئنے میں بھی ٹھہرتے نہیں پیکر اپنے


لکھنؤ میں ابھی تہذیب کے تیور ہیں وہی
اس بھکارن نے تو بدلے نہیں زیور اپنے