Salman Basit

سلمان باسط

سلمان باسط کی نظم

    اظہار محبت اک پہاڑی راستہ ہے

    اسے بس ایک ہی ضد ہے میں اس کی ذات سے منسوب اپنے خیالوں کا کوئی پیکر تراشوں اور اس کے سامنے رکھ دوں اسے بتلاؤں میں اس سے مجھے کتنی محبت ہے اسے کیسے بتاؤں میں زمیں سے آسماں تک اس محیط بیکراں کو اپنی مٹھی میں جکڑنا میرے بس میں ہی نہیں ہے مرے سر پر چمکتے مہرباں سورج کی کرنوں کا کوئی ...

    مزید پڑھیے

    پھر اس کے بعد کا عرصہ

    پھر اس کے بعد کا عرصہ سنا اب تک یہی ہے جب زمیں چکی کے پاٹوں کی طرح گھومے مدار ذات کی اطراف میں جب رقص کرتی گھوم کر اپنی جگہ پہنچے تو دن تکمیل پاتا ہے مگر میں ایسی کیفیت میں زندہ ہوں جہاں تکمیلیت کی ساری تعریفیں زمانی گردشوں کے سب تصور خام رہتے ہیں جہاں شب کی سیاہی اور دن کی رو ...

    مزید پڑھیے

    مجھے آواز مت دینا

    نہایت صاف گوئی سے مجھے اس نے بتایا ہے مجھے آواز مت دینا کبھی پر نور صبحوں میں کبھی رنگین شاموں میں کبھی خوابیدہ خوابوں میں مجھے آواز مت دینا کہ صوت و حرف کے جتنے تعلق تم سے قائم تھے وہ سب نا معتبر ٹھہرے محبت کی جنوں خیزی تو بس اک عارضی شے تھی قبائے شوق کے سب رنگ کچے تھے سو میں نے اب ...

    مزید پڑھیے

    مرے عزیزو

    حیات سکھ ہے کہ موت کچھ فاصلے پہ رستے کو کاٹنے کے لیے کھڑی ہے یہ موت سکھ ہے کہ اختصار حیات ہی وجہ دل کشی ہے جہان زیر و زبر کے جھگڑوں سے ماورا ہو کے دیکھ لینا تمام سکھ ہے یہ خواہشوں کا حصیر کچھ دیر کو لپیٹو فریب سود و زیاں سے کچھ دیر خود کو تفریق کر کے سوچو جہاں کی ساری اکائیوں کو شمار ...

    مزید پڑھیے

    ہمیشہ تشنگی کو زیب تن رکھا

    تمہیں ہم نے بتایا تھا تمنا کے سبک قدموں سے رستے طے نہیں ہوتے مگر تم کو ہماری بات پر ایمان ہی کب تھا ہمیں تھے جو تمہاری ان کہی باتوں کا بھی ادراک رکھتے تھے یہ ہم تھے جو تمہارے لفظ کی حرمت کو دل کی رحل میں رکھ کر دعائے نیم شب کے ساتھ پڑھتے تھے مگر شاید ہماری سب مناجاتیں تمہارے دل کی ...

    مزید پڑھیے

    وقت اک محبوب ہے

    عجب محبوبیت سی وقت کی فطرت میں ہوتی ہے کبھی دل کو لبھاتا ہے تو پھر اس کی عنایت کا تسلسل کم نہیں ہوتا مسلسل ابر رحمت کی طرح دل کی دراڑوں میں بھی رستا ہے محبت کی پیاسی سرزمیں سیراب کرتا ہے کبھی دن کی صباحت زیب تن کر کے اجالے بانٹتا ہے اور کبھی کالی ردائیں اوڑھ کر شب کے سکوت جاں فزا ...

    مزید پڑھیے

    اے رخ یار ادھر دیکھ ذرا

    ہم کہ واماندگی شوق کا لمحہ لے کر آ گئے ہیں ترے پیکر کے اجالوں کے قریب کتنی صدیوں کی مسافت لے کر ایک درماندہ تہی دست مسافر کی طرح آ کے ٹھہرے ہیں ترے پیار کے برگد نیچے ہم کہ مسحور طلسمات کدے ہیں تیرے تیری آنکھوں تیرے ہونٹوں تیری زلفوں کے اسیر تیری تمنا کے فقیر منتظر ہیں کہ ترے جسم ...

    مزید پڑھیے

    مناجات

    خداوندا! تری اقلیم میں رہتے ہوئے اک عمر گزری ہے مگر اب تک طریق بندگی مجھ کو نہیں آیا مرے جذبوں نے اب تک جذب کے معنی نہیں سیکھے ابھی تک خواہشوں کے پاس دل کو رہن رکھا ہے ابھی تک نیم شب کی ساعتوں کی برکتیں مجھ پر نہیں اتریں مری آنکھوں میں تیری روشنی کے خد و خال اب تک نہیں ابھرے مری ...

    مزید پڑھیے

    توجیہہ

    بھلا قطع تعلق کی کوئی توجیہہ کیسے ہو تعلق ٹوٹنے کی نہج پر آ کر ہمیشہ ٹوٹ جاتا ہے لب بام تمنا ہاتھ اکثر چھوٹ جاتا ہے کبھی کچھ موڑ سیدھے راستوں کو موڑ دیتے ہیں کبھی لمبی مسافت کی تھکن شوق سفر کو ماند کرتی ہے کبھی یکسانیت کا خوف جذبوں کی لگامیں کھینچ لیتا ہے کبھی اک راہرو جلدی میں ...

    مزید پڑھیے

    محمد کا آخری خطبہ

    مرے عزیزو زمان حاضر کے منتخب بے مثال لوگو مری طریقت پہ چلنے والو مری معیت میں جس گزر گاہ پر چلے ہو بہت کٹھن تھی قدم قدم پر نئے حوادث تمہارے سچ کا خراج لینے تمہاری رہ میں کھڑے ہوئے تھے زوال آمادہ لوگ تم سے عروج کی اس گھڑی میں آ آ کے پوچھتے تھے کہ جلتے سورج تلے عقیدے کی چھاؤں کب تک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2