ہمیشہ تشنگی کو زیب تن رکھا
تمہیں ہم نے بتایا تھا
تمنا کے سبک قدموں سے رستے طے نہیں ہوتے
مگر تم کو ہماری بات پر ایمان ہی کب تھا
ہمیں تھے
جو تمہاری ان کہی باتوں کا بھی ادراک رکھتے تھے
یہ ہم تھے
جو تمہارے لفظ کی حرمت کو
دل کی رحل میں رکھ کر
دعائے نیم شب کے ساتھ پڑھتے تھے
مگر شاید ہماری سب مناجاتیں
تمہارے دل کی بے روزن سماعت تک نہیں پہنچیں
پھر ایسا تھا
تمہارے پاس جتنے زخم تھے
سب ہم کو دے ڈالے
یہ زخموں کی قبا بھی خوب تھی
جب تمہاری یاد کے جھونکے
اسے چھو کر گزرتے تھے
تو یہ تن سے چپکتی تھی
مگر ہم نے کبھی زخموں پہ مرہم تک نہیں رکھا
ہماری آرزو نے تو
ہمیشہ تشنگی کو زیب تن رکھا