مناجات
خداوندا!
تری اقلیم میں رہتے ہوئے اک عمر گزری ہے
مگر اب تک طریق بندگی مجھ کو نہیں آیا
مرے جذبوں نے اب تک جذب کے معنی نہیں سیکھے
ابھی تک خواہشوں کے پاس دل کو رہن رکھا ہے
ابھی تک نیم شب کی ساعتوں کی برکتیں مجھ پر نہیں اتریں
مری آنکھوں میں تیری روشنی کے خد و خال اب تک نہیں ابھرے
مری آنکھیں ابھی تک بے بصر ہیں
اور ستم یہ ہے
بصیرت کے دریچے وا نہیں ہوتے
خدائے لم یزل
تجھ کو زوال آدمیت کی قسم
مجھ سے مری یہ بے بسی لے لے
تجھے تو یہ خبر ہے
اس جبین شوق میں سجدے تڑپتے ہیں
مگر میں راندۂ درگاہ جب سجدے میں جاتا ہوں
تو اپنی توجہ
صحن کے محفوظ کونے میں رکھی جوتیوں میں چھوڑ آتا ہوں