توجیہہ

بھلا قطع تعلق کی کوئی توجیہہ کیسے ہو
تعلق ٹوٹنے کی نہج پر آ کر ہمیشہ ٹوٹ جاتا ہے
لب بام تمنا ہاتھ اکثر چھوٹ جاتا ہے
کبھی کچھ موڑ سیدھے راستوں کو موڑ دیتے ہیں
کبھی لمبی مسافت کی تھکن شوق سفر کو ماند کرتی ہے
کبھی یکسانیت کا خوف جذبوں کی لگامیں کھینچ لیتا ہے
کبھی اک راہرو جلدی میں ہوتا ہے
کبھی خواہش تو ہوتی ہے
مگر جذبہ نہیں ہوتا
کبھی جذبات ہوتے ہیں
مگر خواہش نہیں ہوتی
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
تعلق سے تعفن اٹھنے لگتا ہے
کبھی کچھ بھی نہیں ہوتا
مگر پھر بھی تعلق ٹوٹ جاتا ہے
بھلا قطع تعلق کی کوئی توجیہہ کیسے ہو