محمد کا آخری خطبہ
مرے عزیزو
زمان حاضر کے منتخب بے مثال لوگو
مری طریقت پہ چلنے والو
مری معیت میں جس گزر گاہ پر چلے ہو
بہت کٹھن تھی
قدم قدم پر نئے حوادث
تمہارے سچ کا خراج لینے
تمہاری رہ میں کھڑے ہوئے تھے
زوال آمادہ لوگ
تم سے عروج کی اس گھڑی میں
آ آ کے پوچھتے تھے
کہ جلتے سورج تلے عقیدے کی چھاؤں کب تک جواں رہے گی
یہ جاں کنی کا عذاب کتنے برس سہو گے
وہ بے خبر تھے
کہ جو بھی اس راہ پر چلا ہے
وہ جبر کی آہنی فصیلوں کو
سنگ منزل سمجھ کے بڑھتا چلا گیا ہے
جب تمہارا ایمان اپنی تکمیل پا چکا ہے
تمہارے اندر کے بت کدوں کے تمام اصنام
ڈھ چکے ہیں
سفر کی ساری صعوبتوں سے گزر چکے ہو
گواہ رہنا
صداقتوں کے امین لوگو
گواہ رہنا
کہ میں نے ساری امانتیں تم کو سونپ دی ہیں
سنو
کہ اب جو میں کہہ رہا ہوں
یہی وہ نسخۂ کیمیا ہے
جو ذات کے بندھنوں سے
تم کو رہائی دے گا
تمہارے اندر کی سب خلیجوں کو پاٹ دے گا
میں زندگی کی فصاحتوں اور بلاغتوں کو
سمجھ کے تم سے یہ کہہ رہا ہوں
سماعتیں اور بصارتیں قبلہ رو کرو گے
تو دیکھ لینا
بصیرتوں کے چراغ
خود ہی تمہارے اندر کے سارے طاقچوں میں جل اٹھیں گے
تمہیں خبر ہے؟
کہ زندگی اپنے ظاہری خد و خال سے کتنی مختلف ہے
کہ روح کے پل تلے تمہارے وجود کا عارضی بہاؤ
بڑی ہی سرعت سے بہہ رہا ہے