مجھے آواز مت دینا
نہایت صاف گوئی سے مجھے اس نے بتایا ہے
مجھے آواز مت دینا
کبھی پر نور صبحوں میں
کبھی رنگین شاموں میں
کبھی خوابیدہ خوابوں میں
مجھے آواز مت دینا
کہ صوت و حرف کے جتنے تعلق تم سے قائم تھے
وہ سب نا معتبر ٹھہرے
محبت کی جنوں خیزی تو بس اک عارضی شے تھی
قبائے شوق کے سب رنگ کچے تھے
سو میں نے اب دوپٹے کے کسی پہلو سے
کوئی بھی گرہ باقی نہیں رکھی
کوئی خواہش کوئی چاہت کوئی حسرت نہیں رکھی
جو کوئی کانچ کا ٹکڑا
کسی وعدے کا بوسیدہ تیقن
یا کوئی امید کا اک پل
تمہارے پاس ہے
تو لوٹا دو
مجھے اب یاد آیا ہے
کہ آخر کو یہ ہونا تھا
یہی آخر میں ہونا ہے