سانس کی لکیریں

یہ ہوا کا کھیل ہے
میں بھی نہیں تو بھی نہیں ہے
شام کے رستے پہ اڑتی دھول کے خاکے ہیں ہم
سانس الجھی سی لکیریں
رنگ آوازوں کے دیواروں پہ مٹی کے پرانے نقش ہیں
سرد سہ پہروں میں
جلدی جلدی چلتی دھوپ کی طرح رواں ہیں
ہونٹ اور یہ ہاتھ سارے بے نشاں ہیں
شام کی دہلیز سے آگے
پرانا سا کوئی گھر ہے
جہاں میں بھی ہوں تو بھی جہاں ہے
اس جگہ کوئی نہیں
میں بھی نہیں تو بھی نہیں