شام

شام ہے
لمبی گلیوں میں اونچے مکانوں کی دیوار پر
پھیلتے سائے ہیں
دور افق پر سیہ رنگ بادل کے پیچھے
سلگتی ہوئی دھوپ ہے
ایسے ہی تیرے جیون کا ڈھلتا ہوا روپ ہے
اس ہوا میں ترے درد کا گیت ہے
ان درختوں کے گرتے ہوئے آنسوؤں میں
کسی اور کا غم نہیں
ایک تیرے سوا کوئی ماتم نہیں
ایک لمحے میں یہ جگمگاتے ہوئے شوخ رنگ
اک دھواں بن کے اڑ جانے والے ہیں
ان کی دمکتی کلی بجھنے والی ہے
وہ تیرگی چھانے والی ہے
جب تیرا احساس تجھ سے بچھڑ کے
گھنے اور بے نام جنگل میں کھو جائے گا
تو یہاں آرزو کی چتا پہ کھڑی روئے گی