آوارہ
کوئی یاد ایسی نہیں
جو مجھے راہ چلتے ہوئے روک لے میرا دامن پکڑے
مرے پاؤں میں ایک زنجیر سی ڈال دے
کوئی بھی ایسا بیتا ہوا پل نہیں
مست جھونکے کے مانند جو گنگناتا ہوا دور سے آئے
ویران آنکھوں سے لپٹے
کسی بھولی بسری ہوئی بات کا گیت گائے
مرے سامنے ایک پھیلا ہوا جال ہے راستوں کا
قطاریں ہیں بجلی کے کھمبوں کی اونچے مکانوں کی پٹریوں کی
مگر کوئی بھی راستہ کوئی بھی روشنی
کوئی کھڑکی کسی پیڑ کا سایہ ایسا نہیں ہے
جسے دیکھ کر
مہربان آنکھ کی مسکراہٹ مجھے یاد آئے
بھٹکتی ہوئی روح کو اپنی بانہوں میں لے لے