رواں ان پانیوں پر بلبلے ہیں

رواں ان پانیوں پر بلبلے ہیں
صدف گہرے سمندر میں رکھے ہیں


شگوفے پھوٹتے ہیں نخل دل پر
مرے بچے مجھے جب چومتے ہیں


ہوا میں تتلیاں اڑتی ہیں اب بھی
ابھی تک لوگ ہنستے بولتے ہیں


تمہیں معلوم ہے نا ان لبوں پر
مرے حصے کے کچھ بوسے پڑے ہیں


ہمارے ساتھ رہتے ہیں ہمیشہ
بڑے اچھے ہمارے مسئلے ہیں


مرے جہلم ترے دریا کے اب بھی
مری آنکھوں سے گہرے رابطے ہیں


زمیں کو اس کی مٹی سونپنا تھی
فلک سے اس لئے ہم آ گئے ہیں


یہ کیسے بادشاہ وقت ہیں جو
مرے معصوم بچے مارتے ہیں


یہی آواز آتی ہے دروں سے
ہم اپنی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں