شکم ماہی کبھی طور عطا کرتا ہے

شکم ماہی کبھی طور عطا کرتا ہے
تیرگی اس کی وہی نور عطا کرتا ہے


زرد موسم وہی دیتا ہے ہری ٹہنی کو
خالی پیڑوں کو وہی بور عطا کرتا ہے


نار دوزخ بھی ہے مخلوق اسی خالق کی
وہی فردوس وہی حور عطا کرتا ہے


اس کو کچھ خوف نہیں دہر کے آقاؤں کا
وہ کمک ظاہر و مستور عطا کرتا ہے


بھید کھلتے ہیں کبھی اور الجھ جاتے ہیں
منزلیں پاس کبھی دور عطا کرتا ہے


جب بھی اٹھتا ہے زمیں سے کوئی فتنہ کوئی شر
امن کا وہ نیا منشور عطا کرتا ہے


ہر کسی کو کہاں دیتا ہے یہ سودا یہ جنوں
سب کو کب جرأت منصور عطا کرتا ہے