شب میں طلوع چہرۂ مہتاب کیجئے

شب میں طلوع چہرۂ مہتاب کیجئے
آغاز روشنی کا نیا باب کیجئے


یہ ملگجی سی رات دھواں اور یہ وصال
اس مہربان وقت کو آداب کیجئے


میں تشنگی سمیٹ کے لایا ہوں عمر کی
یک لمحۂ وصال میں سیراب کیجئے


ایسے تو ان میں عکس مرا ڈوب جائے گا
آنکھیں نہ اپنی خانۂ سیلاب کیجئے


پچھتا رہا ہوں خود کو حقیقت میں ڈھال کر
مژگاں پہ رکھ کے پھر سے مجھے خواب کیجئے


اک بحر بیکراں میں اسے ڈھال دے گا علم
اس کے سپرد فکر کا تالاب کیجئے