سلیم بیتاب کی غزل

    آج کچھ اندیشۂ صرصر نہیں

    آج کچھ اندیشۂ صرصر نہیں اب کوئی ہم میں شکستہ پر نہیں سامنے شیشے تو ہیں لاکھوں مگر آج اپنے ہاتھ میں پتھر نہیں پھول زخموں کے کھلے ہیں جا بجا یہ تو میرے شہر کا منظر نہیں جل رہے ہیں ہم تو اپنی آگ میں آتشیں تیرا حسیں پیکر نہیں روشنی کی بھیک مانگوں غیر سے اتنا بھی تاریک میرا گھر ...

    مزید پڑھیے

    چمکے ہوئے ہیں دیوار و در رونق ہے بازاروں میں

    چمکے ہوئے ہیں دیوار و در رونق ہے بازاروں میں کیسے کیسے لوگ آئے ہیں کیسی کیسی کاروں میں میں تو اس کے سامنے بیٹھا اس کا چہرہ پڑھتا تھا جانے وہ کیا ڈھونڈ رہا تھا انگریزی اخباروں میں وہ بھی دن تھے جب ہر چھٹی تیرے ساتھ گزرتی تھی آج مگر رکھا ہی کیا ہے ہفتوں اور اتواروں میں جانے کس ...

    مزید پڑھیے

    اس کو دیکھا تھا فقط دو چار لمحوں کے لئے

    اس کو دیکھا تھا فقط دو چار لمحوں کے لئے ہو گئے تنہا جہاں میں کتنی صدیوں کے لئے رات کا پچھلا پہر مجھ کو بشارت دے گیا آ رہی ہے روشنی تاریک گلیوں کے لئے کوئی سی رت ہو سدا پایا ہے ان کو سوگوار موسموں کا قہر ہے معصوم پتوں کے لئے اب کوئی چہرہ کوئی منظر ہمیں روکے گا کیا اٹھ چکے اپنے قدم ...

    مزید پڑھیے

    چہرے پہ اس کے اشک کی تحریر بن گئی

    چہرے پہ اس کے اشک کی تحریر بن گئی وہ آنکھ میرے درد کی تفسیر بن گئی میں نے تو یونہی راکھ میں پھیری تھیں انگلیاں دیکھا جو غور سے تری تصویر بن گئی ہر سمت ہیں کٹی پڑی پھولوں کی گردنیں اب کے صبا ہی باغ میں شمشیر بن گئی اس کی نظر تو کہتی تھی پرواز کے لیے میری ہی سوچ پاؤں کی زنجیر بن ...

    مزید پڑھیے

    یوں بنے سنورے ہوئے سے پھول ہیں گلزار میں

    یوں بنے سنورے ہوئے سے پھول ہیں گلزار میں سیر کو نکلی ہوں جیسے لڑکیاں بازار میں یہ ترا حسن تکلم یہ ترا حسن بیاں ٹوٹنے لگتے ہیں آئینے تری گفتار میں کس نے پھینکا ہے یہ پتھر ذہن کے تالاب میں ایک طوفاں سا بپا ہے اب مرے افکار میں تیرے چہرے پر نظر آتے ہیں اپنے ہی نقوش ہے مرا دیدار بھی ...

    مزید پڑھیے

    پھولوں کی ہے تخلیق کہ شعلوں سے بنا ہے

    پھولوں کی ہے تخلیق کہ شعلوں سے بنا ہے کندن سا ترا جسم جو خوشبو میں بسا ہے جنگل کے غزالوں پہ عجب خوف ہے طاری طوفان کوئی شہر کی جانب سے اٹھا ہے یہ حسن چمن ہے مرے احساس کی تخلیق ورنہ کہیں گل ہے نہ کہیں موج صبا ہے ہر لفظ ترے چہرے کی تصویر بنا تھا کس کرب سے سو بار ترے خط کو پڑھا ...

    مزید پڑھیے

    ہر بلبل مشتاق تہ دام ہے اب بھی

    ہر بلبل مشتاق تہ دام ہے اب بھی پھولوں کی طلب باعث آلام ہے اب بھی اک عمر سے گو رسم جنوں چھوڑ چکا ہے دیوانہ ترے شہر میں بدنام ہے اب بھی کہنے کو تو ہر سمت بہاروں کا سماں ہے دل اپنا تو افسردہ سر شام ہے اب بھی مدت سے کئے بیٹھے ہیں گو ترک محبت ہاں باعث تسکین وہی نام ہے اب بھی کس آنکھ ...

    مزید پڑھیے

    داستانوں میں وہ جادو ہے نہ تفسیروں میں ہے

    داستانوں میں وہ جادو ہے نہ تفسیروں میں ہے جو تری آنکھوں کی بے آواز تقریروں میں ہے رائیگاں ہیں کل کی خوشیاں کل کے غم بھی بے اثر اب بھلا رکھا ہی کیا ماضی کی تصویروں میں ہے تیری آنکھوں میں اگر پڑھنے کی ہمت ہے تو پڑھ کرب کا مضموں مرے ماتھے کی تحریروں میں ہے اس کے اک اک انگ میں وہ ...

    مزید پڑھیے

    جی میں آتا ہے کہ اک روز یہ منظر دیکھیں

    جی میں آتا ہے کہ اک روز یہ منظر دیکھیں سامنے تجھ کو بٹھائیں تجھے شب بھر دیکھیں بند ہے شام سے ہی شہر کا ہر دروازہ آ شب ہجر کہ اب اور کوئی گھر دیکھیں ایسے ہم دیکھتے ہیں دل کے اجڑنے کا سماں جس طرح داسیاں جلتا ہوا مندر دیکھیں آج بھی شہر میں ہے میری وفا کی شہرت آئیں اور آ کے ذرا میرے ...

    مزید پڑھیے

    قبضہ مرے بدن پہ مری خواہشوں کا ہے

    قبضہ مرے بدن پہ مری خواہشوں کا ہے بستی مری پہ راج مرے دشمنوں کا ہے قلب و نظر میں نور نئے تجربوں کا ہے احسان کس قدر یہ بدلتی رتوں کا ہے چہرے سے دھل چکی مری بیداریوں کی راکھ آنکھوں میں کچھ خمار ابھی رتجگوں کا ہے تو سو رہا تھا اور میں دستک نہ دے سکا کتنا خیال مجھ کو تری راحتوں کا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3