سلیم بیتاب کی غزل

    ہونٹوں پہ مہر بھی نہیں نغمات بھی نہیں

    ہونٹوں پہ مہر بھی نہیں نغمات بھی نہیں اے مہرباں یہ شہر طلسمات بھی نہیں شہروں میں گام گام پہ لاکھوں گنا سہی معصوم اتنے آج کے دیہات بھی نہیں وہ بیٹھتا ہے شہر کے ہوٹل میں آج بھی میرے نصیب میں کوئی فٹ پاتھ بھی نہیں اب ذہن میں بھی قوس قزح پھوٹتی نہیں ہاتھوں میں میرے آج ترا ہاتھ بھی ...

    مزید پڑھیے

    زندگی نے بخشا ہے زہر آگہی مجھ کو

    زندگی نے بخشا ہے زہر آگہی مجھ کو کر دیا گیا اندھا دے کے روشنی مجھ کو خواب کا ہر اک شیشہ سو جگہ سے ٹوٹا ہے کس قدر پڑی مہنگی آئینہ گری مجھ کو دوسروں سے نفرت کا خواب تک نہ دیکھوں گا دوستو خود اپنے سے عشق ہی سہی مجھ کو میں جہاں بھی ہوں لیکن مطمئن تو بیٹھا ہوں تیرے رشد سے بہتر میری ...

    مزید پڑھیے

    پڑا ہوا میں کسی آئنے کے گھر میں ہوں

    پڑا ہوا میں کسی آئنے کے گھر میں ہوں یہ تیرا شہر ہے یا خواب کے نگر میں ہوں اڑائے پھرتی ہے ان دیکھے ساحلوں کی ہوا میں ایک عمر سے اک بے کراں سفر میں ہوں تجھے یہ وہم کہ میں تجھ سے بے تعلق ہوں مجھے یہ دکھ کہ ترے حلقۂ اثر میں ہوں مری تلاش میں گرداں ہیں تیر کرنوں کے چھپا ہوا میں خنک ...

    مزید پڑھیے

    کسی کی نبض پہ اس طرح انگلیاں رکھ دے

    کسی کی نبض پہ اس طرح انگلیاں رکھ دے کہ تیرے سامنے وہ دل کی داستاں رکھ دے میں زخم زخم بدن کو چھپاؤں کس کس سے خدا کے واسطے تو ہاتھ سے کماں رکھ دے تو ایک بار مجھے دھرنے دے زمیں پہ قدم پھر اس کے بعد مرے سر پہ آسماں رکھ دے جو دیکھنا ہے مری روح کی توانائی تو میرے جسم کو شعلوں کے درمیاں ...

    مزید پڑھیے

    آگ سی برستی ہے سبز سبز پتوں سے

    آگ سی برستی ہے سبز سبز پتوں سے دور بھاگتے ہیں لوگ شہر کے درختوں سے پچھلی رات جب ہر سو ظلمتوں کا پہرہ تھا ایک چاند نکلا تھا ان حسیں دریچوں سے جانے چھو گئے ہوں گے کس کے پھول سے پاؤں اک مہک سی اٹھتی ہے اس نگر کے رستوں سے آج کے زمانے میں کس کو ہے سکوں حاصل سب ہیں بر سر پیکار اپنی اپنی ...

    مزید پڑھیے

    فکر کا سبزہ ملا جذبات کی کائی ملی

    فکر کا سبزہ ملا جذبات کی کائی ملی ذہن کے تالاب پر کیا نقش آرائی ملی مطمئن ہوتا کہاں میرا دل جلوت پسند درمیان شہر بھی جنگل سی تنہائی ملی دیکھنے میں دور سے وہ کس قدر سادہ لگا پاس سے دیکھا تو اس میں کتنی گہرائی ملی ہر دریچہ میرے استقبال کو وا ہو گیا اجنبی گلیوں میں بھی مجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    بنا ہے دشمن گل جب سے باغباں اپنا

    بنا ہے دشمن گل جب سے باغباں اپنا بھری بہار میں جلتا ہے آشیاں اپنا اگر ہو اذن تو اے میر کارواں پوچھوں چلا ہے کون سی منزل کو کارواں اپنا اب اس گلی میں مرا کوئی ہم جلیس نہیں قدم قدم پہ جہاں کل تھا رازداں اپنا جہاز اپنے حریفوں کے بے شمار سہی کرو نہ فکر کہ دریا ہے بے کراں اپنا زمیں ...

    مزید پڑھیے

    میں پجاری تھا مگر میرا کوئی مندر نہ تھا

    میں پجاری تھا مگر میرا کوئی مندر نہ تھا جو بھی تھا پہلو میں میرے وہ مرا دلبر نہ تھا کس قدر دل کش لگیں سپنے میں گلیاں شہر کی کھل گئی جب آنکھ تو پھر وہ حسیں منظر نہ تھا جانے کیا شے دل کے آئینے کے ٹکڑے کر گئی دیکھنے میں اس کے ہاتھوں میں کوئی پتھر نہ تھا بد حواسی تھی مری یا تجھ سے ...

    مزید پڑھیے

    کر گئے اشک مری آنکھ کو جل تھل کیا کیا

    کر گئے اشک مری آنکھ کو جل تھل کیا کیا اب کے برسا ہے تری یاد کا بادل کیا کیا جس طرف دیکھیے اک قوس قزح ہے رقصاں رنگ بھرتا ہے فضا میں ترا آنچل کیا کیا تو تو چپ چاپ تھا لیکن تجھے معلوم نہیں کہہ گیا میری نظر سے ترا کاجل کیا کیا شہر سفاک کی بے درد گزر گاہوں میں جگمگاتے ہیں چراغ سر مقتل ...

    مزید پڑھیے

    شہروں کی خاک چھان کر آیا ہوں گاؤں میں

    شہروں کی خاک چھان کر آیا ہوں گاؤں میں کتنا سکوں ملا ہے درختوں کی چھاؤں میں وہ آ رہا ہے میری طرف رینگتا ہوا کانٹا طلب کا چبھ گیا پتھر کے پاؤں میں اب اس کے جسم پر بھی مزین ہیں دھجیاں جس کا شمار تھا کبھی رنگیں قباؤں میں دیتا رہا پہاڑ کی چوٹی سے وہ صدا اس کی صدائیں کھو گئیں اونچی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3