Salahuddin Parvez

صلاح الدین پرویز

صلاح الدین پرویز کی نظم

    کارتک

    پانی میں عکس دیکھا جنگل میں رقص دیکھا سورج لباس پہنے چندا سے زیادہ ٹھنڈا اس رات آئینے میں اک ایسا شخص دیکھا چاندنی کے رتھ پر سج کے اس شخص کی سواری اب ہو رہی ہے دیکھو سوئے افق روانہ اب لائے گی وہاں سے کچھ درد کا خزانہ ان منظروں سے ہٹ کے جھرنے کے شور و شر میں ہم نے نہاتے دیکھی اک ...

    مزید پڑھیے

    الہ آبادی کی ناکامی کی آخری نظم

    آگ کی اک دو لکیریں چھ لکیریں دس لکیریں ہاتھ کی موجوں سے ملنے جا رہی ہیں ہاتھ کی موجوں میں مرنے جا رہی ہیں گھر بسانا کھیل کیسا خود کشی ہے گھر کی ندی میں نہانے کا عمل اک سرکشی ہے باغ میں ننگے قدم چلنا شرارت کی خوشی ہے بے وقوفی بے وفائی آج کل اک بانس پر چڑھ کر ستارے کھا رہی ہے بھول ...

    مزید پڑھیے

    کیوں ترا رہ گذار یاد آیا

    تیری جنت سے بہت بہتر ہے میرے محبوب کا گھر اے خدا تو مجھے جنت کے عوض گھر دے دے میرے محبوب کا گھر وہ کرے لاکھ ستم مجھ پہ میں سب سہہ لوں گا موسم سرما میں وہ آگ لگا کے دل میں ہاتھ بھی تاپے گوارا ہے مجھے دل نے گر تنگ کیا تو جگر کو میں صدائیں دوں گا اس کو بھی تشنہ جو پایا تو بھی فریاد کروں ...

    مزید پڑھیے

    چاند ڈوب جاتا ہے

    چاند اپنے بستے میں بے سفر شبیہوں کو مٹیوں کے پاؤں میں لکڑیوں کے گھوڑوں میں اوس کے پیالوں میں رات کے کھلونوں میں کس لیے سموتا ہے آنکھوں کے بستر سے روز وہ اترتا ہے پاؤں پاؤں چلتا ہے برف سے ڈھکی ہوئی بازوؤں کی شاموں میں روز ڈوب جاتا ہے چاند ڈوب جاتا ہے

    مزید پڑھیے

    پھاگن

    آنگن میں اک شجر ہے دالان میں ہوائیں کمرے میں ایک لڑکی اجلی اداس لڑکی واٹر کلر سے دل پہ پتے بنا رہی ہے اتنے میں پیڑ آیا کمرے میں پیڑ آیا پتے گرا کے بولا ''باہر ہوا بہت ہے'' لڑکی تھی پہلے اجلی اب پیلی ہو گئی ہے پھر چند پل بیتے داخل ہوئی ہوائیں پتے اڑا کے بولیں اندر ہوا بہت ہے لڑکی تھی ...

    مزید پڑھیے

    رات کئی دنوں سے غائب تھی

    رات کئی دنوں سے غائب تھی سخت کہرے کی دبیز ساعتوں میں حلق میں رم کی ایک پوری بوتل جھونک کے سارجنٹ رات کی وجلینس پہ نکلا رات کئی راتوں سے غائب تھی لوٹا آٹھ گھنٹے کے بعد خالی ہاتھ مضمحل نڈھال سا اپنے گھر دیکھا رات بے لباس اس کے سامنے پلنگ پر پڑی ہوئی تھی گاڑ رہا تھا سورج اپنا نیزہ اس ...

    مزید پڑھیے

    منظر

    سارا منظر پانی میں ڈوبا ہوا ایک چھوٹی سی نہر بن گیا ہے سب لوگ کہرے سے ڈھکے اور دھوپ کے بستر سے بندھے منتظر ہیں کہ کوئی آواز اوپر سے اترے اور انہیں ثبت کر دے ایک ایسی سمت کے منظر میں کہ اگر وہ اپنے گھروں کو ڈوبتے دیکھیں تو دیر تک ہنستے رہیں رو بھی سکیں لیکن سکون کی پد چاپیں اپنے عصا ...

    مزید پڑھیے

    ایک صبح کا منظر

    ایک بھرے گھر کے آنگن میں پھول کھلے ہیں گھاس اگی ہے گھاس ہری مخمل جیسی ہے جس کے اوپر جھوم رہی ہیں ننھی ننھی اوس کی بوندیں گھر کے دو مینار کپاسی جانے کب سے روک رہے ہیں سپنوں کے شہزادے کو

    مزید پڑھیے

    موم بتی

    اور جب اس کے قد پر اٹیچی کا سامان رکھا گیا موم بتی ہنسی موم بتی کا ہنسنا بجا ہے مجھے کوستی ہے مرے گھر میں پچھلے کئی سال سے ایک آواز جس کے کئی راستے دھند کے سرد لہجے میں الجھے ہوئے ہیں مرے گھر کو اک موم بتی کی خواہش کہیں جنگلوں کا نہ رستہ دکھا دے سفر جب نیا کتھئی سوٹ پہنے نئی ریل ...

    مزید پڑھیے

    خوش گوار موسم کی آخری سطریں

    ماحول سے پرے کسی خوش رنگ جھیل میں وہ اپنے نرم جسم پہ قالین ڈالے ہے آنکھوں میں موسموں کی چتا کو سنبھالے ہے کوئی نہیں جو ریت پہ دوزخ سنبھالے ہو کوئی نہیں جو آنکھوں میں اک جال تانے ہو سردی اداس جسم کی پرچھائیں بھی اداس کمرے کے نیلے پردے سے تنہائی نوچ کر سوچا ہے جا بسوں کسی حیران ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4