خوش گوار موسم کی آخری سطریں

ماحول سے پرے کسی خوش رنگ جھیل میں
وہ اپنے نرم جسم پہ قالین ڈالے ہے
آنکھوں میں موسموں کی چتا کو سنبھالے ہے
کوئی نہیں
جو ریت پہ دوزخ سنبھالے ہو
کوئی نہیں
جو آنکھوں میں اک جال تانے ہو
سردی اداس
جسم کی پرچھائیں بھی اداس


کمرے کے نیلے پردے سے تنہائی نوچ کر
سوچا ہے جا بسوں کسی حیران گاؤں میں
جس کے وشال پیار کی چھتنار کے تلے
منڈلا رہا ہو دیر سے
شبنم کے آس پاس
سڑکوں پہ کہرا
یاد کی معصومیت کے ساتھ