موم بتی

اور جب
اس کے قد پر
اٹیچی کا سامان رکھا گیا
موم بتی ہنسی
موم بتی کا ہنسنا بجا ہے


مجھے کوستی ہے
مرے گھر میں پچھلے کئی سال سے
ایک آواز
جس کے کئی راستے
دھند کے سرد لہجے میں
الجھے ہوئے ہیں
مرے گھر کو
اک موم بتی کی خواہش
کہیں جنگلوں کا نہ رستہ دکھا دے


سفر
جب نیا کتھئی سوٹ پہنے
نئی ریل گاڑی میں بیٹھا
تو اس کو مسافر سمجھ کر
کئی لوگ ہنسنے لگے
اور جب ان کے پیالوں میں رکھی ہوئی
چائے جمنے لگی
تب انہیں یاد آیا
بزرگوں نے مرتے سمے
اپنی آنکھیں زباں سے چکھی تھیں
مگر موم بتی کی لمبی زباں
ریل گاڑی میں بیٹھی سفر کر رہی تھی
اور تبھی اک سفر
ان کی آنکھیں چرا کر کہیں لے گیا تھا
مرے ہاتھ میں اک اٹیچی ہے لیکن
اسے کھولنا میرے بس میں نہیں ہے
اور اب
موم بتی بھی ہنسنے لگی ہے