چاند ڈوب جاتا ہے
چاند اپنے بستے میں
بے سفر شبیہوں کو
مٹیوں کے پاؤں میں لکڑیوں کے گھوڑوں میں
اوس کے پیالوں میں رات کے کھلونوں میں
کس لیے سموتا ہے
آنکھوں کے بستر سے روز وہ اترتا ہے
پاؤں پاؤں چلتا ہے
برف سے ڈھکی ہوئی بازوؤں کی شاموں میں
روز ڈوب جاتا ہے
چاند ڈوب جاتا ہے