Salahuddin Parvez

صلاح الدین پرویز

صلاح الدین پرویز کی نظم

    ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

    حسن مہ گرچہ بہ ہنگام کمال اچھا ہے اس سے محبوب مرا اچھا بہت اچھا ہے بوسہ دیتا نہیں پر دل میں چھپا جاتا ہے پاس رکھتا ہوں میں اک جام سفال ہر لمحہ ساغر جم سے تو بہتر ہے بازار میں مل جاتا ہے مرا محبوب جب آتا ہے مرے گھر دیکھنے طبیعت میری اس کے دیکھن سے جو آ جاتی ہے چہرے پہ رمق وہ سمجھتا ہے ...

    مزید پڑھیے

    لکھنؤ

    لکھنؤ شہر میں سب شیعہ اور سنی نہیں لکھنؤ بھی تو ہے ہم وہیں جائیں گے

    مزید پڑھیے

    شام

    دھیرے دھیرے شام آ رہی ہے رات کی کتابوں میں پت جھڑوں کی سانسوں میں دھندلی دھندلی آنکھوں میں رات بڑھتی جا رہی ہے نیند ایک گاؤں ہے نیند کی تلاش میں آوازیں آ رہی ہیں پاؤں کھڑاؤں پہنے ست ست گا رہے ہیں پیپل کے پات ہرے دھیرے دھیرے گر رہے ہیں کئی ہاتھ بڑھ رہے ہیں شک والے رنگ لیے موروں کے ...

    مزید پڑھیے

    پہلی نظم

    دیوتا کے گن گانے والوں اڑتا سورج کیا ہے اڑتا سورج ایک پہیلی بڑی پرانی سونا امبر جس کو ہر دن دہراتا ہے اپرم پار اندھیروں میں وہ انجانی موت کی جانب جادو کی ناؤ پہ چڑھا دور بہت ہی دور کو اڑتا جاتا ہے اڑتا سورج کیا ہے بھگتو ایک روپہلی شان ہے چاندی کا شعلہ ہے اٹھتی اور نکھرتی کھیتی ...

    مزید پڑھیے

    عورت خدا کا اخبار ہے

    آج سے صرف کچھ سال پہلے کی یہ بات ہے آسمان جب زمیں پر نہیں تھا خدا ایک اخبار تھا اور اخبار میں توتلی عینکوں کے برے شہر کا ذکر تھا اور میں نے کہا تھا اگر میری ناپاک آنکھوں کی الماریوں میں کبھی دودھ کا جام دیکھو تو آواز دینا چلا آؤں گا میں خطرناک چہروں کا دشمن نہیں ہوں آج کی رات عورت ...

    مزید پڑھیے

    خوشبو

    کوئی خوشبو سی خلاؤں کے گہرے گھنے جنگلوں میں چھپی دیکھتی ہے ضدی بچے کو جس کا کھلونا نری دھول سے اٹ گیا ہے اس کے چاند اور سورج مٹی میں رل مل گئے ہیں گھر میں سناٹا پھیلا ہوا ہے کواڑوں کی باریک جھریوں کے پیچھے کوئی پاک معبود کی نرم آغوش میں جل رہا ہے ابھی ایک لمحے کے زیر اثر یکایک کسی ...

    مزید پڑھیے

    مبارک ہو

    اچانک خود میں یہ کیسی تبدیلیاں محسوس کر رہا ہوں میں میرے بال دراز اور گھنے ہو گئے ہیں میں اب دو چوٹیاں باندھنے لگا ہوں میری آنکھیں پہلے سے زیادہ مخمور ہو گئی ہیں وہ اب دیکھنے کے بجائے زیادہ رونے لگی ہیں میرے ہونٹ کہرے کی ٹھنڈ کی طرح سفید پڑ گئے ہیں وہ اب بولنے کے بجائے زیادہ ...

    مزید پڑھیے

    تیسری نظم

    تھوڑا تھوڑا یہ جو سہاگن رنگ اکٹھا دل میں ہوا ہے جانے کتنے بھید نچوڑے نیند گنوائی پیاس چرائی کون سے چور ہاتھوں سے لٹ کر آج یہ گھر آباد کیا ہے برسوں سے سوندھی مٹی نے کیسی ہیکڑ جوت جگائی خوشیوں کی بوچھار جو پلٹی غم کا مکھڑا دھل سا گیا ہے ساون ماس خزانے اپجے سر سے پاؤں تلک ہریائی کون ...

    مزید پڑھیے

    شعلۂ عشق

    ناز و انداز حسینوں کے وہ عشرے غمزے بعد مرنے کے مرے ختم ہوئے اب نہ ناخن میں حنا ہے نہ سرمہ ہے کہیں آنکھوں میں جو مرے دم سے تھا کہ میں عاشق تھا اکیلا تنہا بعد میرے کیا یہ منصب کوئی پائے گا کبھی شعلۂ شمع سیہ پوش ہوا ماتم میں دھواں بن کے کہیں خاموش ہوا شمع روشن تھی بجھ گئی جلتے جلتے بعد ...

    مزید پڑھیے

    چیت

    کوئل میرے شبدوں کو تو چھاپے خانے لے جا وہ اخبار تو پڑھتے ہوں گے پڑھ کے خبر میرے مرنے کی دوڑے دوڑے گھر آئیں گے ڈاکئے تو چٹھی کے بجائے آم مری بگیا کے اب کی ان کے دفتر لے جا سب سے چھپا کے آم وہ میرے ہاتھوں میں بھر لیں گے پھر کرتے کے نیچے, پیچھے، سینے کے جنگل میں ان کو دبکا لیں گے سکھی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4