الہ آبادی کی ناکامی کی آخری نظم

آگ کی اک دو لکیریں
چھ لکیریں دس لکیریں
ہاتھ کی موجوں سے ملنے جا رہی ہیں
ہاتھ کی موجوں میں مرنے جا رہی ہیں


گھر بسانا کھیل کیسا خود کشی ہے
گھر کی ندی میں نہانے کا عمل اک سرکشی ہے
باغ میں ننگے قدم چلنا شرارت کی خوشی ہے
بے وقوفی بے وفائی
آج کل اک بانس پر چڑھ کر
ستارے کھا رہی ہے


بھول جاؤ
کون تم ہو
کون میں ہوں
کون وہ تھا
کیونکہ افسانوں سے رنگ دوستی تبدیل ہوگا
چاند کٹ کر صبح کے تن پر گرے گا
اور سورج شام کے ماتھے کی نم ٹکیا بنے گا
آج تم اس گھر کے دروازے پہ لکھ دو
وہ صلاح الدین
جو پرویزؔ بھی ہے
آج جنتا سے علی گڑھ جا رہا ہے