رات
اندھ سے بھرے بستر پر اپنے بے ترتیب کپڑوں میں چھپی اور ناچھپی بکھری ہوئی سہمی ہوئی میری آنکھوں میں خدا کو پڑھ رہی ہے اور ابھی کچھ دیر پہلے گھر کی ساری روشنی اس کی آنکھوں میں غروب ہو گئی ہے
اندھ سے بھرے بستر پر اپنے بے ترتیب کپڑوں میں چھپی اور ناچھپی بکھری ہوئی سہمی ہوئی میری آنکھوں میں خدا کو پڑھ رہی ہے اور ابھی کچھ دیر پہلے گھر کی ساری روشنی اس کی آنکھوں میں غروب ہو گئی ہے
شخصیت ہاتھوں میں کانپی ہونٹ ناری بن گئے آسماں ٹوٹا زمیں پگھلی بدن کی چاندنی صوفے پہ اوندھی گر پڑی اک کرن جانے کہاں سے روشنی کی نہر میں آ کر گری دیوتا قامت بدن تحلیل ہو کر جام میں ان گنت رتیلے خوابوں کا خدا بن ہی گیا اور شہر سنگ میں پھر موم کا جادو چلا چاقو چلا
آندھیاں ہوتی ہیں کیا، طوفان کہتے ہیں کسے! پہلے تو مٹی کی اک ہستی بنا، پھر مجھ سے پوچھا بارشیں ہوتی ہیں کیا، سیلاب کہتے ہیں کسے! پہلے تو کاغذ کی اک کشتی بنا، پھر مجھ سے پوچھا پوچھتا کیا ہے بتا! اے خواب، میرے خیال سے ٹوٹ جاتی ہیں میری نیندیں، ترے سنگار سے دیکھ کر یہ جذبہ بے اختیاری، ...
کاو کاو سخت جانی اور ایسی تنہائی جذبۂ بے اختیاری اور ایسی تنہائی آتش خاموش میں جلتا رہا اور کوئی وصل کو آیا نہیں وحشت ایسی تھی کہ صحرا بھی جلا وہ بھی جلا تھی وہ داغوں کی بہار تھا چراغاں رات میں اور قیس تھا تصویر میں پھر بھی عریاں ہی تھا وہ اس نے کبھی کپڑے نہ پہنے خوشبو بھرے خوشیاں ...
نقش فریادی بنا پھرتا ہوں میں بازار میں کاغذی اک پیرہن بس ڈھونڈھتا پھرتا ہوں میں پر وہ ملتا ہی نہیں کس طرح اپنی شکایت کے لئے پہنچوں بادشاہ وقت کے دربار میں بادشاہ بد بخت ہے ہر وقت رہتا ہے مدرا میں اسیر یہ مدرا وہ ہے اس کے ذہن میں ہے جو بھری اس مدرا کے ہی کارن اس نے اپنے دیس کے لوگوں ...
باغ میں اضطراب ایسا ہے جیسے گہر میں کرتا ہے قطرہ اضطراب یہ خزاں کی ہی تو بخشش ہے جو آتی ہے بہار کلفتیں اور اضطراب اور ان کے ساتھ ساتھ وصل خزاں ہی زندگی میں است ہے پیوست ہے یہ اندھیری شب ہے کیسی دور تک جلتی نہیں مشعل کوئی کوئی چراغ دل ہی جلتا ہے مرا اور اس کی روشنی میں بت کدہ کے در ...
سیاہ راتوں کے بے اماں راستوں پہ چھٹکے ہوئے یہ چہرے کہ جیسے پت جھڑ میں بکھر گئے ہوں بس ان کی بے چین زخم خوردہ سی پتلیوں میں رقم ہے باقی جو گھومتی ہیں جو منتظر ہیں مرے زمانے میں پھل نہیں ہیں فقط اخزاں کے زوال ہیں اور ایسے طوفاں کہ دیکھتے دیکھتے ہزاروں درخت جڑ سے اکھڑ گئے ہیں امید ...
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر گیا بہت روئے ہیں ہم ہزار بار در پہ تمہارے بیٹھ کے چلمن اٹھا کے ایک دن دیکھا نہیں جناب نے دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم شاید جناب کا گزر اس رہ گزر سے ہو کبھی ہم دیکھ لیں گے گر تمہیں آنکھوں میں دید آئے گی ہم کو نوید امن ...
آتش عشق سے میری شب تنہائی میں سائے نے بھی نہ دیا ساتھ مری جاں کا وہ ناراض رہا میں نے جب آئنہ دیکھا تو پشیمان ہوا اپنا چہرہ نہ نظر آیا مجھے آئنے میں کوئی ویرانہ تھا پیالہ گردش میں تھا مے اس میں نہیں تھی ہرگز میں بلاتا رہا ساقی کو پہ وہ نکلا نہیں مے خانے سے خس و خاشاک ہوئی میری ...
سمجھا کے خواہشوں کو تمنا کی دھوپ میں وہ آ گئی ہے میرے مکاں کے سراب میں انگارے رکھ رہی ہے مسلسل کتاب پر وہ بد حواس پھاڑ رہی ہے ورق ورق خود میں سمٹ رہا ہوں مگر بھاگتی نہیں لمحے گزر رہے ہیں مگر بھاگتی نہیں اب میں اگر زبان کو پاؤں پہ پھینک دوں وہ مجھ کو تنہا چھوڑ کے لکھ جائے گی کہیں اک ...