کیوں ترا رہ گذار یاد آیا

تیری جنت سے بہت بہتر ہے
میرے محبوب کا گھر
اے خدا تو مجھے جنت کے عوض
گھر دے دے میرے محبوب کا گھر
وہ کرے لاکھ ستم مجھ پہ
میں سب سہہ لوں گا
موسم سرما میں وہ آگ لگا کے دل میں
ہاتھ بھی تاپے گوارا ہے مجھے
دل نے گر تنگ کیا
تو جگر کو میں صدائیں دوں گا
اس کو بھی تشنہ جو پایا
تو بھی فریاد کروں گا
نہیں میں
عمر سب بیت گئی
کوچۂ جاناں کے لگاتے چکر
بعد مرنے کے بھی جی میں ہے طواف
اسی کوچے کا طواف
جس میں گھر ہے مرے محبوب کا گھر
اس کا گھر گھر کی طرح میرے نہیں
ایک دن گھر سے جو گھبرا کے میں صحرا پہونچا
تھی نہیں صحرا میں وہ وحشت ویرانی
جو مرے گھر میں ہے
اس لئے گھر مرا اب مری جنت ٹھہرا
میرے محبوب کے کوچہ کا طواف
اور اس کا گھر نہیں دونوں یہ ملے
تو یہ کہہ دیتا ہوں میں
زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا