Sajida Zaidi

ساجدہ زیدی

ہندوستان کی ممتاز شاعرات میں نمایاں

One of the leading women poets in India.

ساجدہ زیدی کی نظم

    یہ کس کی سازش ہے

    یہ کس کی سازش ہے کس کا خون ہے یہ کون آمادۂ جنوں ہے یہ کون آگ اور خون کی ہولی جلا رہا ہے یہ کون تیروں سے کھیلتا ہے یہ کون خنجر بکف اخوت کا جسم نازک کچل رہا ہے ہمکتی معصومیت کو نیزوں سے چھیدتا ہے لرزتی انسانیت کے خیمے جلا رہا ہے کہ آسماں سے مہیب شعلے برس رہے ہیں ہوائیں مسموم ہو گئی ...

    مزید پڑھیے

    کاغذی ہے پیرہن

    یہ بے نور اندھی سیاست کا بازار ہے مصلحت کی دکاں ہے شناسا یہاں اجنبی ہیں مسرت کے لمحے بھی بے جان ہیں جسم و جاں کی حقیقت نہیں ہیں ریاکار سوچوں کے جامد حصاروں میں لپٹی ہوئی سر زمین کہہ رہی ہے کہ یہ محفل تنگ داماں ہے ساقی کا اعجاز مطرب کی آواز اور نعرۂ سرمدی کچھ نہیں ہے یہاں تو بس ذوق ...

    مزید پڑھیے

    گمشدہ راستے

    ساعت خود گری خود شناسی رفاقت محبت کے وہ جاگتے قافلے جو مہ و سال کی گرد میں اٹ گئے تھے اب بھی اک گمشدہ راستے پر رواں ہیں ہم نوائی کے وہ رات دن وقت کی گہری اندھی گپھاؤں سے اٹھ کر میرے اطراف یوں جمع ہونے لگے ہیں جیسے مجھے مجھ سے مری بے حسی کا گلہ کر رہے ہوں پوچھتے ہوں کہ کیا موسموں کے ...

    مزید پڑھیے

    کب سے محو سفر ہو

    ساجدہ کن یگوں کی مسافت سمیٹے ہوئے اس بیاباں میں یوں ہی بھٹکتی رہو گی ان بگولوں کے ہم راہ یوں رقص کرتی رہو گی کتنے صحراؤں میں تم نے پھوڑے ہیں پاؤں کے چھالے کتنی بیدار راتوں سے مانگا ہے تم نے خراج تمنا ساجدہ کچھ کہو ہجر کی کن زمانوں میں اشکوں کی مالا پروئی کن حسابوں چکایا قرض ...

    مزید پڑھیے

    وہ عشق جو ہم کو لاحق تھا

    وہ عشق جو ہم کو لاحق تھا شب ہائے سیہ کے دامن میں اسرار جنوں کے کھول گیا بحر موجود کے مرکز سے اک موج تلاطم خیز اٹھی اک درد کی لہر اٹھی دل کے روزن سے جس میں سمٹ گئے دونوں عالم کے رنج و طرب اور ہست و بود کے محور پر رنج و راحت ہم رقص ہوئے فرقت کے تنہا لمحوں میں آباد تھی اک دنیائے ...

    مزید پڑھیے

    آئینے نظر کے گرد ہوئے

    جب درد کے ناتے ٹوٹ گئے جب منظر منظر پھیلے ہوئے ان دیکھے لمبے ہاتھوں نے سب عہد پرانے لوٹ لئے ماضی کے خزانے لوٹ لئے سب عشق کے دعوے روٹھ گئے جاں گنگ ہوئی دل چھوٹ گئے ہر زخم تمنا راکھ ہوا جو شعلۂ جاں تھراتا ہوا شفاف اندھیری راتوں میں رقصاں تھا فلک کے زینے پر تھک ہار کے آخر بیٹھ ...

    مزید پڑھیے

    ہماری روح کا نغمہ کہاں ہے؟

    وہ درد آرزو جو لرزہ بر اندام تھا پہنائے عالم میں وہ حرف تشنگی جو نغمہ بر لب تھا دبستان شب غم میں وہ اک دنیائے نا پیدا کراں تھی آسماں کی وسعتیں جس میں سمائی تھیں بڑے گہرے سمندر موجزن تھے کرۂ دل میں جنہیں اک جستجوئے خام نے خاموش کر ڈالا بہت منہ زور موجیں تھیں جنہیں خود ہم نے پابند ...

    مزید پڑھیے

    سر شام

    ابھی تو منظر گل دعوت نظارہ تھا ابھی تو دیدہ و دل کارزار ہستی ہیں رہ نجات کا عنوان بننے والے تھے ابھی تو شام کے اس موج خیز دریا میں نوا و صوت کا طوفان اٹھنے والا تھا نہاں تلاطم لا‌ انتہا تھا سینے میں ابھی سے کیوں مرے نالے لبوں پہ سوکھ گئے ابھی سے مہر بہ لب کیوں ہوئی نوائے خروش ابھی ...

    مزید پڑھیے

    برق طور

    میں اپنے عرصۂ ہستی کی ڈھونڈھتی تھی اساس تمام عمر بس اک ایسی روشنی کی تلاش کہ جو نگاہ کے دامن میں ہو سکے نہ اسیر مری طبیعت بے چین کی رہی تقدیر مری طلب کی وراثت مری جبیں سائی یہ عبدیت کا تقاضا وہ دشت پیمائی ترے حضور مگر یہ بھی کارگر نہ ہوئی کہیں فضاؤں میں چمکتی تو تھی وہ برق تپاں اس ...

    مزید پڑھیے

    دور افتادگی

    نغمگی گیت حرف و نوا نالۂ شوق صوت و صدا ایک بہری سیاست کے دربار میں سرنگوں پا بہ زنجیر لائے گئے سارا سیماب نقد و نظر سب طلسمات حرف و ہنر پردۂ سحر و اسرار سے ٹوٹ کر مقتل آرزو بن گئے وہ طرب زار دل قصر غم رات بھر جاگتی آگہی یعنی اقلیم جاں مشینوں کے کھنڈرات میں کھو گئے وہ جو آہنگ عالم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2