یہ کس کی سازش ہے
یہ کس کی سازش ہے
کس کا خون ہے
یہ کون آمادۂ جنوں ہے
یہ کون آگ اور خون کی ہولی جلا رہا ہے
یہ کون تیروں سے کھیلتا ہے
یہ کون خنجر بکف
اخوت کا جسم نازک کچل رہا ہے
ہمکتی معصومیت کو نیزوں سے چھیدتا ہے
لرزتی انسانیت کے خیمے جلا رہا ہے
کہ آسماں سے مہیب شعلے برس رہے ہیں
ہوائیں مسموم ہو گئی ہیں
فضاؤں سے خوں ٹپک رہا ہے
زمین کی چھاتی کو چیر کر
نفرتوں کا لاوا ابل پڑا ہے
ہر ایک ذی روح کے بدن پر
اک ان کہے خوف کی ردا ہے
منافقت کی برہنگی کیسے حرف آغاز بن گئی ہے
عدوئے دانش کو کس جفا کار مصلحت نے
کلید دانش سپرد کی ہے
عدوئے انسانیت کو کن چیرہ دستیوں نے
حکومت کرۂ زمیں سونپ دی ہے جس نے
بنائے تہذیب روند ڈالی
کہ روئے ہستی سے عکس تہذیب کی درخشاں متاع کا نور مٹ رہا ہے
شبان دیجور کی سیاہی امڈ رہی ہے
وہ تیرگی ہے ہر ایک جویائے حق سے
تنویر علم و عرفاں کنارہ کش ہے