برق طور
میں اپنے عرصۂ ہستی کی ڈھونڈھتی تھی اساس
تمام عمر بس اک ایسی روشنی کی تلاش
کہ جو نگاہ کے دامن میں
ہو سکے نہ اسیر
مری طبیعت بے چین کی رہی تقدیر
مری طلب کی وراثت
مری جبیں سائی
یہ عبدیت کا تقاضا
وہ دشت پیمائی
ترے حضور مگر یہ بھی کارگر نہ ہوئی
کہیں فضاؤں میں
چمکتی تو تھی وہ برق تپاں
اس ایک لمحے مجھے جرأت نظر نہ ہوئی