کاغذی ہے پیرہن
یہ بے نور اندھی سیاست کا بازار ہے
مصلحت کی دکاں ہے
شناسا یہاں اجنبی ہیں
مسرت کے لمحے بھی بے جان ہیں
جسم و جاں کی حقیقت نہیں ہیں
ریاکار سوچوں کے
جامد حصاروں میں لپٹی ہوئی
سر زمین کہہ رہی ہے
کہ یہ محفل تنگ داماں ہے
ساقی کا اعجاز
مطرب کی آواز
اور نعرۂ سرمدی کچھ نہیں ہے یہاں
تو بس
ذوق ہستی کا
بیدارئ آرزو کا اثاثہ سمیٹو
انہیں بے نوائی کے غاروں میں کھو جاؤ جا کر
جہاں کونے کونے میں
ہر کنج میں ہر قدم پر
سکوت مکمل کا آسیب ہے
شور و غوغا کا جنگل ہے
اور گلشن نطق بے برگ و بار و ثمر ہے
کہ اس محبس فکر میں خیالوں کی محشر خرامی
اندھیروں اجالوں کی تکرار پیہم نہیں ہے
اسی کنج بیگانگی میں چھپا لو دل و جاں
جہاں سحر خیز بیدار روحیں
کبھی نشۂ مے سے سرشار تھیں جو
خمار تمنا گنوا کر
سبک نرم خوابوں سے دامن بچا کر
کار گاہ ہنر سے نگاہیں چرا کر
زمانے کے نقش قدم دیکھتے دیکھتے
سو گئی ہیں
کہ وہ بار حریت دین و دل سے
سبکبار سی ہو گئی ہیں
اگر جان و دل پھر بھی
بیدارئ آرزو
فتنہ سازئ حق بینی و گرم رفتارئ جستجو پر مصر ہوں
تو دیوار محبس کے روزن کو آنکھیں بنا لو
نگاہیں افق پر جما لو