گمشدہ راستے
ساعت خود گری خود شناسی
رفاقت محبت کے وہ جاگتے قافلے
جو مہ و سال کی گرد میں اٹ گئے تھے
اب بھی اک گمشدہ راستے پر رواں ہیں
ہم نوائی کے وہ رات دن
وقت کی گہری اندھی
گپھاؤں سے اٹھ کر
میرے اطراف یوں جمع ہونے لگے ہیں
جیسے مجھے مجھ سے مری بے حسی کا گلہ کر رہے ہوں
پوچھتے ہوں
کہ کیا موسموں کے اٹل دائرے
سوز دل کی بھی زنجیر پا ہیں
عمر رفتہ کے کس بیتے لمحے سے پوچھوں
وہ بیدار راتیں
پر اسرار شامیں
گہر بار صبحیں
وہ مانوس جذبوں سے سرشار باتیں
جو پس پردۂ درد دل
اب بھی سوئی نہیں ہیں
وقت کے راستے پر اگر
کھلی آنکھ کا خواب تھیں
واہمہ تھیں
تو دل سے افق تک
یہ جلتی ہوئی سرخ تحریر کیوں ہے