سر شام

ابھی تو منظر گل دعوت نظارہ تھا
ابھی تو دیدہ و دل کارزار ہستی ہیں
رہ نجات کا عنوان بننے والے تھے
ابھی تو شام کے اس موج خیز دریا میں
نوا و صوت کا طوفان اٹھنے والا تھا
نہاں تلاطم لا‌ انتہا تھا سینے میں
ابھی سے کیوں مرے نالے لبوں پہ سوکھ گئے
ابھی سے مہر بہ لب کیوں ہوئی نوائے خروش
ابھی سے کیوں دل بیتاب تاب غم لایا
ابھی تو جاں پہ بہت قرض تھے زمانے کے