آئینے نظر کے گرد ہوئے
جب درد کے ناتے ٹوٹ گئے
جب منظر منظر پھیلے ہوئے
ان دیکھے لمبے ہاتھوں نے
سب عہد پرانے لوٹ لئے
ماضی کے خزانے لوٹ لئے
سب عشق کے دعوے روٹھ گئے
جاں گنگ ہوئی دل چھوٹ گئے
ہر زخم تمنا راکھ ہوا
جو شعلۂ جاں تھراتا ہوا
شفاف اندھیری راتوں میں
رقصاں تھا فلک کے زینے پر
تھک ہار کے آخر بیٹھ رہا
مٹیالے بے حس ریتیلے ان رستوں پر
وہ رستے
جن پر رشتوں کے
روشن چہرے روپوش ہوئے
وہ جن کے شور شرابے میں
من کی آواز ڈوب گئیں
دل کے ہنگامے سرد ہوئے
آئینے نظر کے گرد ہوئے
وہ رستے بھی کیا رستے تھے
ہر چار طرف
اک دھند کی خاکی چادر تھی
اور اس کے آگے حد نظر تک
پھیلی ہوئی
بے جاں لفظوں
بے مہر یگوں کی
دلدل تھی
وہ شعلۂ رقصاں حیراں تھا
وہ دیدۂ حیراں گریاں تھا
وہ ذہن پریشاں لرزاں تھا
اک دل کا نگر سو ویراں تھا
اک راہی تھا جو ان بے مہر فضاؤں میں
شوق پرواز سے
خوئے سفر کی بیتابی سے ہراساں تھا
کچھ چاند کی مدھم کرنیں تھیں
جو درد کے سارے رازوں سے
واقف تھیں مگر
ان مٹیالے بے حس گدلے
رستوں سے
وہ بھی گریزاں تھیں