Sahba Akhtar

صہبا اختر

صہبا اختر کی غزل

    برنگ شعر گرے اور بار بار گرے

    برنگ شعر گرے اور بار بار گرے ہمارے ذہن پہ کرنوں کے آبشار گرے غموں کی راہ میں ثابت قدم ہیں دیوانے بساط عیش پہ کتنے نشاط کار گرے چمن کھلا تو نئی نکہتوں کے آنچل پر شگفت گل سے ترے عکس بے شمار گرے زمین چاند کا ٹکڑا ہے جس کی ظلمت پر کئی اجالے ہر اک شب ستارہ وار گرے ہمیں بھی فرصت یک ...

    مزید پڑھیے

    ہر نئے چہرے سے پیدا اک نیا چہرا ہوا

    ہر نئے چہرے سے پیدا اک نیا چہرا ہوا طاق نسیاں پر ہے کوئی آئنہ رکھا ہوا بے وسیلہ اس جہاں میں موت بھی ممکن نہیں حیلۂ دار و رسن بھی ہے مرا سمجھا ہوا زخم گہرے کر رہی ہے ہر نئے مصرعے کی کاٹ شعر کہنے سے بھی دل کا بوجھ کب ہلکا ہوا زندگی کیا جانے کیوں محسوس ہوتا ہے مجھے تجھ سے پہلے بھی ...

    مزید پڑھیے

    محیط مثل آسماں زمین فکر و فن پہ ہوں

    محیط مثل آسماں زمین فکر و فن پہ ہوں سکوت کا سبب ہے یہ مقام لا سخن پہ ہوں فضائے لا ثبات میں سرائے بے جہات میں مسافرانہ خندہ ریز وقت کی تھکن پہ ہوں مرے نصیب کی سحر غروب ہو گئی کہاں نظر جمائے دیر سے تری کرن کرن پہ ہوں سجاؤں وہ چمن جنہیں خزاں کبھی نہ چھو سکے تری طرح جو حکمراں شگفت ہر ...

    مزید پڑھیے

    آ جا اندھیری راتیں تنہا بتا چکا ہوں

    آ جا اندھیری راتیں تنہا بتا چکا ہوں شمعیں جہاں نہ جلتیں آنکھیں جلا چکا ہوں خورشید شام رفتہ لوٹے تو اس سے پوچھوں میں زندگی کی کتنی صبحیں گنوا چکا ہوں امید و بیم شب نے یہ بھی بھلا دیا ہے کتنے دئے جلائے کتنے بجھا چکا ہوں میں باز گشت دل ہوں پیہم شکست دل ہوں وہ آزما رہا ہوں جو آزما ...

    مزید پڑھیے

    رقص یک نور کبھی سیل بلا دیکھتا ہوں

    رقص یک نور کبھی سیل بلا دیکھتا ہوں ذہن پر چھائی ہوئی دھند میں کیا دیکھتا ہوں تجھ کو محدود خد و خال میں کر رکھا ہے میں کہاں تجھ کو ابھی تیرے سوا دیکھتا ہوں نرم مٹی سے اٹھے ہیں وہ کنوارے جذبات جن کو پہنے ہوئے پھولوں کی قبا دیکھتا ہوں آنکھ حائل ہے تری دید میں اچھا ہوگا آج یہ آخری ...

    مزید پڑھیے

    واقف نہیں تو اس کے لبوں کو کنول نہ لکھ

    واقف نہیں تو اس کے لبوں کو کنول نہ لکھ الفاظ کو خضاب لگا کر غزل نہ لکھ مومن کے ساتھ صرف خدا ہے صنم نہیں اس بیکسی کو عقدۂ مشکل کا حل نہ لکھ لفظوں میں کب سمٹتا ہے وہ سحر بے کراں شعروں کو حسن دوست کا نعم البدل نہ لکھ انسان آپ اپنی تباہی کو کم نہیں دنیا کی اس تباہی کو کار اجل نہ ...

    مزید پڑھیے

    یوں بھی ہوا اک عرصے تک اک شعر نہ مجھ سے تمام ہوا

    یوں بھی ہوا اک عرصے تک اک شعر نہ مجھ سے تمام ہوا اور کبھی اک رات میں اک دیوان مجھے الہام ہوا اپنی تنہائی کا شکوہ تجھ کو گروہ غیر سے کیوں یہ تو ہوس کا دور ہے پیارے جس کو جس سے کام ہوا میں اپنے خالق سے خوش ہوں مثل علی اس قسمت پر دولت اہل‌ جہل نے پائی علم مجھے انعام ہوا کیسی قناعت ...

    مزید پڑھیے

    دہراؤں کیا فسانۂ خواب و خیال کو

    دہراؤں کیا فسانۂ خواب و خیال کو گزرے کئی فراق کسی کے وصال کو رشتہ بجز گمان نہ تھا زندگی سے کچھ میں نے فقط قیاس کیا ماہ و سال کو شاید وہ سنگ دل ہو کبھی مائل کرم صورت نہ دے یقین کی اس احتمال کو ترغیب کا ہے وسعت امکاں پہ انحصار رم خوردگی سکھاتا ہے صحرا غزال کو صہباؔ سدا بہار ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    اس طریقے کو عداوت میں روا رکھتا ہوں میں

    اس طریقے کو عداوت میں روا رکھتا ہوں میں اپنے دشمن کے لیے حرف دعا رکھتا ہوں میں میں فقیری میں بھی اہل زر سے بہتر ہی رہا کچھ نہیں رکھتا مگر نام خدا رکھتا ہوں میں میں کبھی تنہا نہیں ہوتا سر کنج چمن وہ نہ ہوں تو ہاتھ میں دست صبا رکھتا ہوں میں میں نے کم کھویا سوا پایا ہے کار عشق ...

    مزید پڑھیے

    ہم اپنے بخت سیہ کے اثر میں رہتے ہیں

    ہم اپنے بخت سیہ کے اثر میں رہتے ہیں وہ رات ہے کہ ستارے نظر میں رہتے ہیں تماشہ گاہ طلوع و غروب سے ہٹ کر ہم اک سواد‌ شب بے سحر میں رہتے ہیں نہ تھی خدا کی زمیں تنگ جن کے قدموں پر فغاں کہ قید وہ دیوار و در میں رہتے ہیں وہ آگہی کے سمندر کہاں ہیں جن کے لئے تمام عمر یہ پیاسے سفر میں رہتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4