رقص یک نور کبھی سیل بلا دیکھتا ہوں

رقص یک نور کبھی سیل بلا دیکھتا ہوں
ذہن پر چھائی ہوئی دھند میں کیا دیکھتا ہوں


تجھ کو محدود خد و خال میں کر رکھا ہے
میں کہاں تجھ کو ابھی تیرے سوا دیکھتا ہوں


نرم مٹی سے اٹھے ہیں وہ کنوارے جذبات
جن کو پہنے ہوئے پھولوں کی قبا دیکھتا ہوں


آنکھ حائل ہے تری دید میں اچھا ہوگا
آج یہ آخری پردہ بھی اٹھا دیکھتا ہوں


کیوں نہ اس پردہ نشیں کو ہو تکلم میں حجاب
میں تو آواز کو بھی چہرہ نما دیکھتا ہوں


میں وہ کافر ہوں کہ اس ظلمت دل کے ہاتھوں
ہر چمکتے ہوئے چہرے میں خدا دیکھتا ہوں


پھر کوئی کنج اماں دشت سخن میں صہباؔ
آج پھر دل کو پریشان نوا دیکھتا ہوں