خون تازہ
موسم سرما کی رات جس کے سردی میں رچے برفیلے ہاتھ جب بھی چھوتے ہیں مجھے کپکپا اٹھتا ہوں میں میں عجب برزخ میں ہوں اپنی بیوی کا شناسا جسم بھی اب مجھے سیراب کر سکتا نہیں میرے اندر خواہشوں کا ایک پیاسا بھیڑیا آج بے کل ہے بہت خون تازہ کے لیے
موسم سرما کی رات جس کے سردی میں رچے برفیلے ہاتھ جب بھی چھوتے ہیں مجھے کپکپا اٹھتا ہوں میں میں عجب برزخ میں ہوں اپنی بیوی کا شناسا جسم بھی اب مجھے سیراب کر سکتا نہیں میرے اندر خواہشوں کا ایک پیاسا بھیڑیا آج بے کل ہے بہت خون تازہ کے لیے
میں ہمیشہ کی طرح تنہائی کی باہوں میں باہیں ڈال کر رات بھی ساحل پہ تھا محو خرام رات بھی اپنے ہی سائے کی نگاہوں میں نگاہیں ڈال کر میں خود اپنے آپ سے تھا ہم کلام دم بدم دامن کشاں تھا رات بھی گہرے سمندر کا فسوں کھنچ رہی تھیں رات کی نیلی رگیں رات بھی جب بڑھ رہا تھا تیز وحشت خیز موجوں ...
ایک جوان سی اور دیوانی عورت کو میں نے سڑک پر اکثر گھومتے دیکھا ہے گاہ کسی سائے کی طرف مصروف خرام اور کبھی وحشت میں جھومتے دیکھا ہے اس کی سرخ آنکھوں میں پاگل پن کے سوا اور بھی کچھ ہے جس کا کوئی نام نہیں اک ایسی بیداری اس پر طاری ہے جس کے مقدر میں اب کوئی شام نہیں اس کے پتھر جیسے چپ ...
ایک سپیرا میری گلی میں آ نکلا کل شام اس کی آنکھیں چمکیلی تھیں اور آنکھیں سنگین لیکن رس میں بھیگے نغمے چھیڑ رہی تھی بین نغمے جن میں جاگ رہے تھے دنیا کے آلام اس کے گلے میں سانپ پڑا تھا جیسے کوئی ہار اس نے گلے سے سانپ اتارا اور کہا کہ جھوم مٹی چاٹ کے پیار سے بابو جی کے پاؤں چوم سانپ ...