Sahba Akhtar

صہبا اختر

صہبا اختر کی نظم

    خون تازہ

    موسم سرما کی رات جس کے سردی میں رچے برفیلے ہاتھ جب بھی چھوتے ہیں مجھے کپکپا اٹھتا ہوں میں میں عجب برزخ میں ہوں اپنی بیوی کا شناسا جسم بھی اب مجھے سیراب کر سکتا نہیں میرے اندر خواہشوں کا ایک پیاسا بھیڑیا آج بے کل ہے بہت خون تازہ کے لیے

    مزید پڑھیے

    ہر رات کا خواب

    میں ہمیشہ کی طرح تنہائی کی باہوں میں باہیں ڈال کر رات بھی ساحل پہ تھا محو خرام رات بھی اپنے ہی سائے کی نگاہوں میں نگاہیں ڈال کر میں خود اپنے آپ سے تھا ہم کلام دم بدم دامن کشاں تھا رات بھی گہرے سمندر کا فسوں کھنچ رہی تھیں رات کی نیلی رگیں رات بھی جب بڑھ رہا تھا تیز وحشت خیز موجوں ...

    مزید پڑھیے

    پاگل عورت

    ایک جوان سی اور دیوانی عورت کو میں نے سڑک پر اکثر گھومتے دیکھا ہے گاہ کسی سائے کی طرف مصروف خرام اور کبھی وحشت میں جھومتے دیکھا ہے اس کی سرخ آنکھوں میں پاگل پن کے سوا اور بھی کچھ ہے جس کا کوئی نام نہیں اک ایسی بیداری اس پر طاری ہے جس کے مقدر میں اب کوئی شام نہیں اس کے پتھر جیسے چپ ...

    مزید پڑھیے

    سانپ سپیرا اور میں

    ایک سپیرا میری گلی میں آ نکلا کل شام اس کی آنکھیں چمکیلی تھیں اور آنکھیں سنگین لیکن رس میں بھیگے نغمے چھیڑ رہی تھی بین نغمے جن میں جاگ رہے تھے دنیا کے آلام اس کے گلے میں سانپ پڑا تھا جیسے کوئی ہار اس نے گلے سے سانپ اتارا اور کہا کہ جھوم مٹی چاٹ کے پیار سے بابو جی کے پاؤں چوم سانپ ...

    مزید پڑھیے