Sahba Akhtar

صہبا اختر

صہبا اختر کے تمام مواد

31 غزل (Ghazal)

    برنگ شعر گرے اور بار بار گرے

    برنگ شعر گرے اور بار بار گرے ہمارے ذہن پہ کرنوں کے آبشار گرے غموں کی راہ میں ثابت قدم ہیں دیوانے بساط عیش پہ کتنے نشاط کار گرے چمن کھلا تو نئی نکہتوں کے آنچل پر شگفت گل سے ترے عکس بے شمار گرے زمین چاند کا ٹکڑا ہے جس کی ظلمت پر کئی اجالے ہر اک شب ستارہ وار گرے ہمیں بھی فرصت یک ...

    مزید پڑھیے

    ہر نئے چہرے سے پیدا اک نیا چہرا ہوا

    ہر نئے چہرے سے پیدا اک نیا چہرا ہوا طاق نسیاں پر ہے کوئی آئنہ رکھا ہوا بے وسیلہ اس جہاں میں موت بھی ممکن نہیں حیلۂ دار و رسن بھی ہے مرا سمجھا ہوا زخم گہرے کر رہی ہے ہر نئے مصرعے کی کاٹ شعر کہنے سے بھی دل کا بوجھ کب ہلکا ہوا زندگی کیا جانے کیوں محسوس ہوتا ہے مجھے تجھ سے پہلے بھی ...

    مزید پڑھیے

    محیط مثل آسماں زمین فکر و فن پہ ہوں

    محیط مثل آسماں زمین فکر و فن پہ ہوں سکوت کا سبب ہے یہ مقام لا سخن پہ ہوں فضائے لا ثبات میں سرائے بے جہات میں مسافرانہ خندہ ریز وقت کی تھکن پہ ہوں مرے نصیب کی سحر غروب ہو گئی کہاں نظر جمائے دیر سے تری کرن کرن پہ ہوں سجاؤں وہ چمن جنہیں خزاں کبھی نہ چھو سکے تری طرح جو حکمراں شگفت ہر ...

    مزید پڑھیے

    آ جا اندھیری راتیں تنہا بتا چکا ہوں

    آ جا اندھیری راتیں تنہا بتا چکا ہوں شمعیں جہاں نہ جلتیں آنکھیں جلا چکا ہوں خورشید شام رفتہ لوٹے تو اس سے پوچھوں میں زندگی کی کتنی صبحیں گنوا چکا ہوں امید و بیم شب نے یہ بھی بھلا دیا ہے کتنے دئے جلائے کتنے بجھا چکا ہوں میں باز گشت دل ہوں پیہم شکست دل ہوں وہ آزما رہا ہوں جو آزما ...

    مزید پڑھیے

    رقص یک نور کبھی سیل بلا دیکھتا ہوں

    رقص یک نور کبھی سیل بلا دیکھتا ہوں ذہن پر چھائی ہوئی دھند میں کیا دیکھتا ہوں تجھ کو محدود خد و خال میں کر رکھا ہے میں کہاں تجھ کو ابھی تیرے سوا دیکھتا ہوں نرم مٹی سے اٹھے ہیں وہ کنوارے جذبات جن کو پہنے ہوئے پھولوں کی قبا دیکھتا ہوں آنکھ حائل ہے تری دید میں اچھا ہوگا آج یہ آخری ...

    مزید پڑھیے

تمام

4 نظم (Nazm)

    خون تازہ

    موسم سرما کی رات جس کے سردی میں رچے برفیلے ہاتھ جب بھی چھوتے ہیں مجھے کپکپا اٹھتا ہوں میں میں عجب برزخ میں ہوں اپنی بیوی کا شناسا جسم بھی اب مجھے سیراب کر سکتا نہیں میرے اندر خواہشوں کا ایک پیاسا بھیڑیا آج بے کل ہے بہت خون تازہ کے لیے

    مزید پڑھیے

    ہر رات کا خواب

    میں ہمیشہ کی طرح تنہائی کی باہوں میں باہیں ڈال کر رات بھی ساحل پہ تھا محو خرام رات بھی اپنے ہی سائے کی نگاہوں میں نگاہیں ڈال کر میں خود اپنے آپ سے تھا ہم کلام دم بدم دامن کشاں تھا رات بھی گہرے سمندر کا فسوں کھنچ رہی تھیں رات کی نیلی رگیں رات بھی جب بڑھ رہا تھا تیز وحشت خیز موجوں ...

    مزید پڑھیے

    پاگل عورت

    ایک جوان سی اور دیوانی عورت کو میں نے سڑک پر اکثر گھومتے دیکھا ہے گاہ کسی سائے کی طرف مصروف خرام اور کبھی وحشت میں جھومتے دیکھا ہے اس کی سرخ آنکھوں میں پاگل پن کے سوا اور بھی کچھ ہے جس کا کوئی نام نہیں اک ایسی بیداری اس پر طاری ہے جس کے مقدر میں اب کوئی شام نہیں اس کے پتھر جیسے چپ ...

    مزید پڑھیے

    سانپ سپیرا اور میں

    ایک سپیرا میری گلی میں آ نکلا کل شام اس کی آنکھیں چمکیلی تھیں اور آنکھیں سنگین لیکن رس میں بھیگے نغمے چھیڑ رہی تھی بین نغمے جن میں جاگ رہے تھے دنیا کے آلام اس کے گلے میں سانپ پڑا تھا جیسے کوئی ہار اس نے گلے سے سانپ اتارا اور کہا کہ جھوم مٹی چاٹ کے پیار سے بابو جی کے پاؤں چوم سانپ ...

    مزید پڑھیے