واقف نہیں تو اس کے لبوں کو کنول نہ لکھ
واقف نہیں تو اس کے لبوں کو کنول نہ لکھ
الفاظ کو خضاب لگا کر غزل نہ لکھ
مومن کے ساتھ صرف خدا ہے صنم نہیں
اس بیکسی کو عقدۂ مشکل کا حل نہ لکھ
لفظوں میں کب سمٹتا ہے وہ سحر بے کراں
شعروں کو حسن دوست کا نعم البدل نہ لکھ
انسان آپ اپنی تباہی کو کم نہیں
دنیا کی اس تباہی کو کار اجل نہ لکھ
صہباؔ کے ساتھ ساتھ نہ چل سایۂ ضمیر
اے میرے ہم نشیں مری فرد عمل نہ لکھ