محیط مثل آسماں زمین فکر و فن پہ ہوں
محیط مثل آسماں زمین فکر و فن پہ ہوں
سکوت کا سبب ہے یہ مقام لا سخن پہ ہوں
فضائے لا ثبات میں سرائے بے جہات میں
مسافرانہ خندہ ریز وقت کی تھکن پہ ہوں
مرے نصیب کی سحر غروب ہو گئی کہاں
نظر جمائے دیر سے تری کرن کرن پہ ہوں
سجاؤں وہ چمن جنہیں خزاں کبھی نہ چھو سکے
تری طرح جو حکمراں شگفت ہر چمن پہ ہوں
عزیز تر ہے تیشۂ ہنر غبار درد سے
طریق قیس پر نہیں طریق کوہکن پہ ہوں
ہجوم صد خیال سے نجات مل سکے اگر
تو حاسدانہ معترض کسی کی انجمن پہ ہوں
وصال ہی وصال ہے فراق اب محال ہے
میں تیرے ہر لباس کی طرح ترے بدن پہ ہوں
کسی کے شجرۂ سخن سے نسبت سخن نہیں
میں آپ اپنا مدعی سیادت سخن پہ ہوں