یوں بھی ہوا اک عرصے تک اک شعر نہ مجھ سے تمام ہوا
یوں بھی ہوا اک عرصے تک اک شعر نہ مجھ سے تمام ہوا
اور کبھی اک رات میں اک دیوان مجھے الہام ہوا
اپنی تنہائی کا شکوہ تجھ کو گروہ غیر سے کیوں
یہ تو ہوس کا دور ہے پیارے جس کو جس سے کام ہوا
میں اپنے خالق سے خوش ہوں مثل علی اس قسمت پر
دولت اہل جہل نے پائی علم مجھے انعام ہوا
کیسی قناعت کیسی عبادت حرص و ہوس کے عالم میں
دل جو پہلے گھر تھا خدا کا اب شہر اصنام ہوا
جو پتھر کو موم بنا دے دل میں اب وہ آنچ کہاں
جس شعلے پر ناز بہت تھا وہ شعلہ بھی خام ہوا
جن کو ہے اسلام کا دعویٰ صہباؔ ان کا حال بھی دیکھ
میں تو خیر بتوں کا ہو کر محروم اسلام ہوا