Sahar Ali

سحر علی

سحر علی کی نظم

    گم نام ساحل

    ملو اک دن کسی گم نام ساحل پر وہاں پر ہم قدم ہو کر چلیں گے دور تک یوں ہی ہم اپنے بھیگے پیروں کے نشاں کو ریت کے دامن سے چن کر منزلوں کے ہاتھ میں دے کر کوئی وعدہ کریں گے نیا سپنا بنیں گے اٹھا کر کوئی ارماں ریگ ساحل سے ہم اک دن سیپیوں کے دل میں رکھ دیں گے تاکہ ابر نیساں جب بھی برسے سیپیاں ...

    مزید پڑھیے

    حوصلہ

    یوں ہی گم صم کھڑی تھی میں اسے اذن سفر دے کر ہزاروں بار خود سے ہی لڑی تھی میں کسی کو لوٹ جانے کی خبر دے کر فقط اک پل لگا اس کو مری دہلیز کی حد پار کرنے میں مجھے صدیاں لگیں خود کو مگر تیار کرنے میں

    مزید پڑھیے

    لمس اپنی کہانی نہیں بھولتا

    دل نہیں مانتا مجھ کو سچ سچ بتا آج بھی تیرے کمرے کی کوری مہک ڈھونڈھتی ہے مجھے تیرے سونے دریچے کی بیکل ہوا جس نے پکڑا تھا اک روز دامن مرا جب ترے پاس آئی وہ جان وفا تجھ سے پوچھا مرا شیلف میں رکھی ساری کتابوں کے اوپر جمی دھول میں ان میں رکھے ہوئے کاسنی پھول میں تیرے معمول میں اب بھی ...

    مزید پڑھیے

    خیال

    تم ایک خوب صورت خیال ہو جسے میں ہمیشہ سنبھال کر رکھتی ہوں اور اکثر تنہائی میں تھک کر تمہارے خیال سے سراپا سوال بن کر لپٹ جاتی ہوں

    مزید پڑھیے

    نیک پروین

    یہ ضروری نہیں تم جس پروین کی تلاش میں ہو وہ نیک بھی ہو اکثر زندگی کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے والی لڑکیاں پیچھے رہ جاتی ہیں اور چھپکلی اور کاکروچ سے ڈرنے والی لڑکیاں محبت کی دوڑ میں اول آ جاتی ہیں عجیب شہر ہے دشمن تو ہنس کے ملتا ہے یہ مرے دوست ہیں جو بے رخی سے ملتے ہیں تمہارے ...

    مزید پڑھیے

    تیسری بیٹی

    میں نے جب جنم لیا تو میری ماں مجھے چھاتی سے لگائے رو رہی تھی میری بھوک نے چلانا شروع کیا میں نے دودھ کی بجائے اپنی ماں کے آنسوؤں کا نمک چکھا پھر میں آنسو پیتے پیتے جوان ہو گئی اور آنسو پی کر جوان ہونے والی لڑکیوں کو اگر سانپ بھی کاٹ لے تو وہ مر جاتا ہے

    مزید پڑھیے

    کٹھ پتلی

    جیتی جاگتی عورت کو کٹھ پتلی بنانے میں تمہیں کافی وقت لگ گیا لیکن تمہاری محنت رائیگاں نہیں گئی اب وہ تمہارے تھپڑ نہیں گنتی مگر تم اس کی روٹیاں گنتے ہو اب وہ تمہارے ہونٹوں کی جنبش تمہارے انکھوں کے اشارے پہ رہتی ہے اور تمہاری خاموشی میں اپنا ڈر بناتی رہتی ہے اور تمہیں لگتا ہے کہ وہ ...

    مزید پڑھیے

    راستہ

    میں جانتی ہوں کہ موت کے کئی راستے ہیں جیسے ریل کی پٹری سمندر اور تیری بدلی ہوئی جھیل سی آنکھیں مگر زندگی کا ایک ہی راستہ ہے خاموشی فاصلہ ضروری ہے میں روزانہ دفتر میں تاخیر سے پہنچتی ہوں اور اپنی زنجیر پہن کر بیٹھ جاتی ہوں میں ٹائپ رائیٹر پر ہاتھوں کا غلط استعمال نہیں کرتی چھ ...

    مزید پڑھیے

    نظم گنتی

    جاتی ہوئی محبت آتی ہوئی موت کی طرح لگتی ہے جاتی ہوئی محبت نے گھر کو مکان میں تبدیل کر دیا ہے گھر میں آدمی سانسیں جیتا ہے مکان میں آدمی سانسیں گنتا ہے یوں سانسوں کی گنتی میں آخر کار گنتی کی سانسیں رہ جاتی ہیں

    مزید پڑھیے