Saeed Qais

سعید قیس

سعید قیس کی غزل

    روز ہوا میں اڑنے کی فرمائش ہے

    روز ہوا میں اڑنے کی فرمائش ہے یہ میری مٹی میں کیسی خواہش ہے چہرہ چہرہ غم ہے اپنے منظر میں اور آنکھوں کے پیچھے ایک نمائش ہے اک تیری آواز نہیں آتی ورنہ چھوٹے سے اس گھر میں ہر آسائش ہے اب کے ساون آئے تو تم آ جانا سارے بستی والوں کی فرمائش ہے اک دن شیش محل سے باہر بھی دیکھو خیمے کی ...

    مزید پڑھیے

    شام کے آثار گیلے ہیں بہت

    شام کے آثار گیلے ہیں بہت پھر مری آنکھوں میں تیلے ہیں بہت تم سے ملنے کا بہانہ تک نہیں اور بچھڑ جانے کے حیلے ہیں بہت کشت جاں کو خشک سالی کھا گئی موسموں کے رنگ پیلے ہیں بہت برف پگھلی ہے فراز عرش سے آسماں کے رنگ نیلے ہیں بہت بیل کی صورت ہیں ہم پھیلے ہوئے ہم فقیروں کے وسیلے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    خیال و خواب کی دنیا کہاں ہے

    خیال و خواب کی دنیا کہاں ہے تری آنکھیں ترا چہرا کہاں ہے ہم اپنے شوق میں ڈوبے ہوئے ہیں ہمارے شہر میں دریا کہاں ہے تو ساری جستجو ہی رائیگاں تھی وہ اک لمحہ رفاقت کا کہاں ہے ہر اک تارے سے جا کر پوچھتا ہوں یہ سورج رات کو جاتا کہاں ہے یہ کیسا شور ہے دیوار و در کا ہمارے گھر میں وہ رہتا ...

    مزید پڑھیے

    راہ کے پتھروں سے بھاری ہے

    راہ کے پتھروں سے بھاری ہے ہم نے کیا زندگی گزاری ہے رات الٹی پہن کے سوتا ہوں ہجرتوں کا عذاب جاری ہے ہم تو بازی لگا کے ہار چکے دوستو اب تمہاری باری ہے مجھ پہ پھولوں کا قرض ہے میں نے زندگی شاخ سے اتاری ہے سوچتا ہوں کہ تھک گیا ہوں میں تیری جانب سفر بھی جاری ہے یہ جو ہم تم کو بھول ...

    مزید پڑھیے

    ضرب حالات کچھ نہیں ہوتی

    ضرب حالات کچھ نہیں ہوتی رنج کی بات کچھ نہیں ہوتی جس میں دل کا زیاں نہیں ہوتا وہ ملاقات کچھ نہیں ہوتی وہ جو شایان شان فقر نہ ہو ایسی خیرات کچھ نہیں ہوتی بد سرشتی لہو میں ہوتی ہے بات میں بات کچھ نہیں ہوتی زعم تو آستیں کا ہوتا ہے سانپ کی ذات کچھ نہیں ہوتی لوگ جو با وفا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    آرزوئے وصال یار کریں

    آرزوئے وصال یار کریں کس کے آنے کا انتظار کریں درد کے کس مقام سے گزریں اپنا دریا کہاں سے پار کریں کس سے کس موڑ پر بچھڑ جائیں کون سا ہجر اختیار کریں یہ جو اک زخم جاں پس جاں ہے کس کے سینے کے آر پار کریں فرصت شوق عمر آوارہ آ تجھے آج شرمسار کریں دل کی اونچی مچان پر بیٹھیں اور کوئی ...

    مزید پڑھیے

    وہم کیسا گمان میں بھی نہیں

    وہم کیسا گمان میں بھی نہیں تم فقیروں کے دھیان میں بھی نہیں ہم دل دوستاں میں رہتے ہیں تم تو اپنے مکان میں بھی نہیں اب وہ پتھر کہاں سے آئے گا اب ترا گھر چٹان میں بھی نہیں ورنہ تم کو فروخت کر دیتے تم ہماری دکان میں بھی نہیں لوگ روشن ہیں اپنی مٹی سے تم کسی خاکدان میں بھی نہیں ہم ...

    مزید پڑھیے

    سونے کے دل مٹی کے گھر پیچھے چھوڑ آئے ہیں

    سونے کے دل مٹی کے گھر پیچھے چھوڑ آئے ہیں وہ گلیاں وہ شہر کے منظر پیچھے چھوڑ آئے ہیں اپنے آئینوں کو ہم نے روگ لگا رکھا ہے کیا کیا چہرے ہم شیشہ گر پیچھے چھوڑ آئے ہیں تم اپنے دریا کا رونا رونے آ جاتے ہو ہم تو اپنے سات سمندر پیچھے چھوڑ آئے ہیں دیکھو ہم نے اپنی جانوں پر کیا ظلم کیا ...

    مزید پڑھیے

    ٹوٹ جانے کا بھی امکان تھا تم جانتے تھے

    ٹوٹ جانے کا بھی امکان تھا تم جانتے تھے دل میں سب کانچ کا سامان تھا تم جانتے تھے راحت قرب رفاقت کے سبب زندہ ہیں ورنہ جینا کہاں آسان تھا تم جانتے تھے لذت درد سے سیراب مجھے اس نے کیا مجھ پہ اک شخص کا احسان تھا تم جانتے تھے کوئی آواز بھی پتھر نہیں کرتی تھی مجھے اپنے جنگل کا میں ...

    مزید پڑھیے

    ہر قدم پر بکھر بکھر جانا

    ہر قدم پر بکھر بکھر جانا وہ مرا شام ہی سے گھر جانا روز جانا تری گلی کی طرف اور ہواؤں سے پیشتر جانا آرزو ایک پھول کی ہے کہ وہ ہمارا شجر شجر جانا یاد آتے ہیں پر خیالوں کے کتنی اونچی اڑان پر جانا اس قدر چاہنا اسے دل سے اپنی سوچوں سے آپ ڈر جانا ڈوب جانا کبھی اک آنسو میں کبھی دریا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2