ٹوٹ جانے کا بھی امکان تھا تم جانتے تھے
ٹوٹ جانے کا بھی امکان تھا تم جانتے تھے
دل میں سب کانچ کا سامان تھا تم جانتے تھے
راحت قرب رفاقت کے سبب زندہ ہیں
ورنہ جینا کہاں آسان تھا تم جانتے تھے
لذت درد سے سیراب مجھے اس نے کیا
مجھ پہ اک شخص کا احسان تھا تم جانتے تھے
کوئی آواز بھی پتھر نہیں کرتی تھی مجھے
اپنے جنگل کا میں سلطان تھا تم جانتے تھے
کتنا مشکل تھا کسی بت کی پرستش کرنا
میں تو کافر بھی مسلمان تھا تم جانتے تھے
زندگی میرے تصرف میں تھی وہ کیا کرتا
میری بنیاد میں طوفان تھا تم جانتے تھے
اپنے ہاتھوں سے لکھوں اور تمہیں روز پڑھوں
دل میں بس ایک ہی ارمان تھا تم جانتے تھے
ہم سفر اس کے تھے اور رخت سفر بھی اس کا
میں تو بس بے سر و سامان تھا تم جانتے تھے
اب اسے درد کی دہلیز پہ چھوڑ آئے ہو
وہ تو ہارا ہوا انسان تھا تم جانتے تھے
جس کی خوشبو سے معطر میرے اشعار تھے قیسؔ
ایک ہی پھول مری جان تھا تم جانتے تھے