Saeed Qais

سعید قیس

سعید قیس کے تمام مواد

18 غزل (Ghazal)

    روز ہوا میں اڑنے کی فرمائش ہے

    روز ہوا میں اڑنے کی فرمائش ہے یہ میری مٹی میں کیسی خواہش ہے چہرہ چہرہ غم ہے اپنے منظر میں اور آنکھوں کے پیچھے ایک نمائش ہے اک تیری آواز نہیں آتی ورنہ چھوٹے سے اس گھر میں ہر آسائش ہے اب کے ساون آئے تو تم آ جانا سارے بستی والوں کی فرمائش ہے اک دن شیش محل سے باہر بھی دیکھو خیمے کی ...

    مزید پڑھیے

    شام کے آثار گیلے ہیں بہت

    شام کے آثار گیلے ہیں بہت پھر مری آنکھوں میں تیلے ہیں بہت تم سے ملنے کا بہانہ تک نہیں اور بچھڑ جانے کے حیلے ہیں بہت کشت جاں کو خشک سالی کھا گئی موسموں کے رنگ پیلے ہیں بہت برف پگھلی ہے فراز عرش سے آسماں کے رنگ نیلے ہیں بہت بیل کی صورت ہیں ہم پھیلے ہوئے ہم فقیروں کے وسیلے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    خیال و خواب کی دنیا کہاں ہے

    خیال و خواب کی دنیا کہاں ہے تری آنکھیں ترا چہرا کہاں ہے ہم اپنے شوق میں ڈوبے ہوئے ہیں ہمارے شہر میں دریا کہاں ہے تو ساری جستجو ہی رائیگاں تھی وہ اک لمحہ رفاقت کا کہاں ہے ہر اک تارے سے جا کر پوچھتا ہوں یہ سورج رات کو جاتا کہاں ہے یہ کیسا شور ہے دیوار و در کا ہمارے گھر میں وہ رہتا ...

    مزید پڑھیے

    راہ کے پتھروں سے بھاری ہے

    راہ کے پتھروں سے بھاری ہے ہم نے کیا زندگی گزاری ہے رات الٹی پہن کے سوتا ہوں ہجرتوں کا عذاب جاری ہے ہم تو بازی لگا کے ہار چکے دوستو اب تمہاری باری ہے مجھ پہ پھولوں کا قرض ہے میں نے زندگی شاخ سے اتاری ہے سوچتا ہوں کہ تھک گیا ہوں میں تیری جانب سفر بھی جاری ہے یہ جو ہم تم کو بھول ...

    مزید پڑھیے

    ضرب حالات کچھ نہیں ہوتی

    ضرب حالات کچھ نہیں ہوتی رنج کی بات کچھ نہیں ہوتی جس میں دل کا زیاں نہیں ہوتا وہ ملاقات کچھ نہیں ہوتی وہ جو شایان شان فقر نہ ہو ایسی خیرات کچھ نہیں ہوتی بد سرشتی لہو میں ہوتی ہے بات میں بات کچھ نہیں ہوتی زعم تو آستیں کا ہوتا ہے سانپ کی ذات کچھ نہیں ہوتی لوگ جو با وفا نہیں ...

    مزید پڑھیے

تمام

3 نظم (Nazm)

    انتظار

    اور تم نہیں آتے چاند ڈوب جاتا ہے عمر بیت جاتی ہے انتظار کی بازی رات جیت جاتی ہے جبر کا کڑا لمحہ آس کا بجھا تارا شام ہجر کا دریا مجھ میں ڈوب جاتا ہے اور تم نہیں آتے

    مزید پڑھیے

    تعاقب

    پھر مرے تعاقب میں اک اداس سا چہرہ زخم زخم یادوں کے جبر کی ردا اوڑھے ہجر کی تمازت میں وصل کی مسافت میں بے ثمر محبت کی بے نشان گلیوں میں ننگے پاؤں پھرتا ہے

    مزید پڑھیے

    انجام

    ایک صبح کا تارا سر پہ آسماں اوڑھے روشنی کے زینے سے روز اتر کے آتا ہے اور اس نئے گھر کے ادھ کھلے دریچے میں آ کے بیٹھ جاتا ہے ہاتھ کے اشاروں سے دائرے بناتا ہے اور میں محبت کی بوند بوند کرنوں میں روز ڈوب جاتا ہوں

    مزید پڑھیے