راہ کے پتھروں سے بھاری ہے
راہ کے پتھروں سے بھاری ہے
ہم نے کیا زندگی گزاری ہے
رات الٹی پہن کے سوتا ہوں
ہجرتوں کا عذاب جاری ہے
ہم تو بازی لگا کے ہار چکے
دوستو اب تمہاری باری ہے
مجھ پہ پھولوں کا قرض ہے میں نے
زندگی شاخ سے اتاری ہے
سوچتا ہوں کہ تھک گیا ہوں میں
تیری جانب سفر بھی جاری ہے
یہ جو ہم تم کو بھول جاتے ہیں
اک تعلق کی استواری ہے
اب زمانہ بدل گیا ہے قیسؔ
اب محبت بھی اختیاری ہے