انتظار
اور تم نہیں آتے چاند ڈوب جاتا ہے عمر بیت جاتی ہے انتظار کی بازی رات جیت جاتی ہے جبر کا کڑا لمحہ آس کا بجھا تارا شام ہجر کا دریا مجھ میں ڈوب جاتا ہے اور تم نہیں آتے
اور تم نہیں آتے چاند ڈوب جاتا ہے عمر بیت جاتی ہے انتظار کی بازی رات جیت جاتی ہے جبر کا کڑا لمحہ آس کا بجھا تارا شام ہجر کا دریا مجھ میں ڈوب جاتا ہے اور تم نہیں آتے
پھر مرے تعاقب میں اک اداس سا چہرہ زخم زخم یادوں کے جبر کی ردا اوڑھے ہجر کی تمازت میں وصل کی مسافت میں بے ثمر محبت کی بے نشان گلیوں میں ننگے پاؤں پھرتا ہے
ایک صبح کا تارا سر پہ آسماں اوڑھے روشنی کے زینے سے روز اتر کے آتا ہے اور اس نئے گھر کے ادھ کھلے دریچے میں آ کے بیٹھ جاتا ہے ہاتھ کے اشاروں سے دائرے بناتا ہے اور میں محبت کی بوند بوند کرنوں میں روز ڈوب جاتا ہوں