ہر قدم پر بکھر بکھر جانا
ہر قدم پر بکھر بکھر جانا
وہ مرا شام ہی سے گھر جانا
روز جانا تری گلی کی طرف
اور ہواؤں سے پیشتر جانا
آرزو ایک پھول کی ہے کہ
وہ ہمارا شجر شجر جانا
یاد آتے ہیں پر خیالوں کے
کتنی اونچی اڑان پر جانا
اس قدر چاہنا اسے دل سے
اپنی سوچوں سے آپ ڈر جانا
ڈوب جانا کبھی اک آنسو میں
کبھی دریا کو پار کر جانا
ڈھونڈتے ڈھونڈتے اجالوں کو
رات کی آنکھ میں اتر جانا